علومِ عقلیہ کی خود سری
عموما دیکھا گیا ہے کہ علومِ عقلیہ پڑھنے والے کہیں نہ کہیں تعلی و خود سری کے مرض میں مبتلاء ہو جاتے ہیں، اس کی مثالیں قدیم دور سے ہی موجود ہیں، جب معتزلہ و جہمیہ جیسے گروہ پیدا ہوے تو ان کے اساطین اپنی برتری جتاتے اور علماء اسلام کو عامۃ الناس، حشویہ اور ظاہریہ وغیرہ کہتے، بلکہ اس سے عجیب یہ ہے کہ اہل الرأی میں سے بھی کچھ لوگ مدرسہ اہل الحدیث کے اساطینِ علم کے متعلق,
حقارت بھرے کلمات کہہ دیا کرتے تھے، یعنی علم کلام اور فلسفے کے دقیق مسائل پر گفتگو کرنے والے تو ایک طرف، قیاسی اہل الرأی میں سے بھی کچھ اس خود سری میں مبتلاء ہوئے
امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب مشکل الحدیث میں اہل بدعت کے اہل السنہ کے متعلق حقارت بھرے کلمات کے کئی نمونے پیش کیے ہیں
امام حاکم رحمہ اللہ معرفۃ انواع علوم الحدیث میں لکھتے ہیں: ” ہر وہ شخص جو بدعت و الحاد کی طرف منسوب ہے وہ طائفہ منصورہ کو حقارت کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور انھیں حشویہ کہتا ہے”
رامہرمزی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب المحدث الفاصل میں لکھا ہے کہ ایک گروہ اصحاب حدیث کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
علوم عقلیہ پڑھنے والے یا عقل پرستی کا دعوی کرنے والوں میں یہ تکبر اور اہل الحدیث کو حقارت بھری نگاہ سے دیکھنا اس قدر نمایاں تھا کہ عقیدے کی کتابوں میں کسی کے بدعتی ہونے کی علامتوں میں سے ایک یہ علامت لکھی جانے لگی کہ وہ اہل السنہ کو حشویہ کہتا ہو، جیسا کہ رازیین، قوام السنہ، صابونی وغیرہ نے لکھا ہے۔
اہل بدعت علوم عقلیہ پر دسترس کے گھمنڈ میں ایسے خود سر ہو جاتے ہیں بعض اوقات کے مخالف کے احترام و وقار کا بھی کوئی خیال نہیں رکھ پاتے، عمرو بن عبید معتزلی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کو حشوی کہتا تھا۔
یہی عمرو بن عبید ایوب سختیانی اور یونس بن یزید الأیلی جیسے ائمہ کو ارجاس و انجاس کہا کرتا تھا…..!!
علوم عقلیہ کا دعوی کرنے والوں میں بعد ازاں بھی یہ تعلی و تکبر اور خود سری موجود رہی ہے اور آج تک موجود ہے
فخر الدین رازی۔ تقبل اللہ توبتہ و غفر لہ۔ نے اپنی کتاب اساس التقدیس میں امام بخاری و محدثین کو بڑا بھولا قرار دیا ہے، اور اپنی تفسیر میں امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے متعلق بہت سطحی زبان استعمال کی ہے، ان کی کتاب التوحید کو کتاب الشرک تک لکھ دیا ہے، اور پھر ان کی ذات پر حملہ کرتے ہوئے انھیں ناقص العقل اور قلیل الفھم قرار دیا ہے!!!
امام الحرمین جوینی۔ تقبل اللہ توبتہ۔ بھی اپنے مخالفین مثل حافظ ابو نصر السجزی رحمہ اللہ کو حشوی اور اس قسم کے کلمات سے مخاطب کرتے رہے ہیں:
ہمارے قریب کے زمانے میں متعصب ماتریدی کوثری کا ائمہ اہل السنہ کے متعلق لھجہ معروف ہے، بہت حقارت آمیز اور تمسخرانہ انداز سے کئی جگہ اہل الحدیث اور ان کے ائمہ پر کلام کیا ہے۔
باطنی فرقہ میں بھی اسی طرح یہ تکبر موجود رہا ہے، شیعہ روافض اور دیگر گمراہ فرق بھی اپنے ان جیسے علوم عقلیہ پر ناز کرتے ہیں، فلاسفۃ الصوفیہ بھی اس مرض میں مبتلا نظر آتے ہیں۔
غیر مسلموں کے فلاسفہ اور ملحدین جیسے لوگ بھی اس عقل پر اتراتے نظر آتے ہیں۔
عجیب ترین بات یہ ہے کہ اہل السنہ کے قریب ترین ہونے کے باوجود بعض لوگ علوم عقلیہ پڑھ کر اس تعلی میں مبتلا ہو کر اہل السنہ کو حقارت بھری نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں۔
علوم عقلیہ کے دعویداروں کے ہاں اس تکبر کی مکمل ایک تاریخ ہے۔۔۔۔!! یہ ایک دو لوگوں کا گھمنڈ نہیں، اس طبقے کی اکثریت کا مسئلہ ہے، اسی لیے امام ابو یوسف نے علم کلام کے حصول کو زندیقیت کا سبب بتایا ہے…. زندیقیت کا ایک جز عموما تکبر تعلی ہوا کرتا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ علوم عقلیہ پڑھنے والوں کے ہاں یہ تکبر کیوں پیدا ہو جاتا ہے، اہل علم نے اس کے سبب کے متعلق گفتگو کی ہے، خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے بھی اپنی توجیہ ذکر کی ہے، مجھے جو اس کا سبب سمجھ آتا ہے لکھ دیتا ہوں۔
بات یہ ہے کہ علوم عقلیہ میں یقینا ایسے بہت سے مسائل ہیں جن کو سمجھنا اذکیاء کا کام ہے، عام بندے کے لیے ان مسائل کو سمجھنا مشکل اور کبھی ناممکن ہوتا ہے، عقل کی بھی ایک حس ہے، جیسے کچھ کی نظر یا سماعت تیز ہوتی ہے اسی طرح بعض کی عقل تیز ہوتی ہے، علوم عقلیہ علم فلسفہ وغیرہ کے یہ مسائل جو اذکیاء ہی سمجھ پاتے ہیں ان میں پچیدگی زیادہ ہے اور مفید ماحصل بہت کم۔۔۔!! اور عموما ان سے جو مثبت حاصل ہوتا ہے وہ عوام الناس بھی سمجھتے ہیں اور اس کا علم رکھتے ہیں اگرچہ وہ اس علم کے اس طریقے سے غافل ہوتے ہیں جو علوم عقلیہ والوں کے ہاں رائج ہوتا ہے، جیسے بچہ قانون سببیت سمجھتا ہے، لیکن وہ اس قانون کا نام، اس کے برحق ہونے کے دلائل وغیرہ جیسی چیزوں سے لاعلم ہوتا ہے، اسی طرح انسان سمجھتا ہے کہ “میں” سے کیا مراد ہے، لیکن علوم عقلیہ والوں کی طرح وہ اس کی شرح کرنے سے قاصر ہوتا ہے،،، انھیں اسباب کی وجہ سے شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے فرمایا ہے
“المنطق اليوناني لا يحتاج إليه الذكي ولا ينتفع به البليد”
ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ منطقی واضح بات کو پر تکلف اور انقکھے طریقے سے ثابت کرنے کے چکر میں رہتے ہیں، پھر فرماتے ہیں:
وليس لذلك فائدة إلا تضييع الزمان، وإتعاب الأذهان، وكثرة الهذيان، ودعوى التحقيق بالكذب والبهتان
تو علوم عقلیہ کا مسئلہ یہ ہے کہ باوجود بہت سی ایسی چیزوں کے کہ جن کو سمجھنا اذکیاء کا خاصہ ہے۔ ان کا فائدہ بہت کم ہے، یہ ان کے مفید ما حصل کا معاملہ ہے، اور جو ان میں غیر مفید چیزیں ہیں تو وہ بحر لا ساحل لہ ہے۔
علوم عقلیہ پڑھنے والے اس زعم کی وجہ سے کہ ہم خاص قسم کے اذکیاء ہیں پہلے خود پسندی میں مبتلاء ہوتے ہیں۔ اور پھر دوسروں کو حقارت کی نظر سے بھی دیکھنے لگتے ہیں، علوم عقلیہ والوں کے ہاں تکبر کا ایک اور سبب بھی ہے، وہ یہ کہ عقل کی بنیاد پر شرع کا رد سب سے پہلے شیطان نے کیا تھا، اس نے اپنا قیاس مارتے ہوے اللہ تعالی کے حکم کو ٹھکرا دیا، اب مسئلہ یہ ہے کہ جو بھی عقلی علوم پڑھتے ہوے شرع کو پیچھے کرنے لگتا ہے اس پر یہ ابلیسی خصلت مسلط کر دی جاتی ہے، اگر شرع کی تعظیم اور شرع سے متعلقہ امور کی تعظیم کی جائے تو عموما اس مرض سے حفاظت رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سلفی مزاج یہی ہے کہ ان علوم کو پڑھ کر بھی ایسی تعلی پیدا نہ ہو، کہ بعض اوقات ضرورت ان علوم کو پڑھنے کی مقتضی ہوتی ہے، لیکن ان علوم کو پڑھنے کے باجود سلفی مزاج کے حاملین نہ تو خود تکبر میں مبتلاء ہوتے ہیں اور نہ علوم عقلیہ والوں کو اس تعظیمی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس کے وہ مستحق نہیں اور جس سے وہ محدثین و ائمہ دین سے برتر نظر آنے لگیں۔
امام ابن تیمیہ، امام ابن القیم، امام مزی، امام ابن الوزیر، دور حاضر میں ، شیخ گوندلوی، شیخ نورپوری اور دیگر کئی مثالیں موجود ہیں۔
وجہ یہی ہے کہ انھوں نے شرع کی ہمیشہ تعظیم کی ہے، یہی آدمیت ہے، جبکہ عقل میں غلو کرتے ہوے اس کو شرع پر مقدم کرنا ابلیسیت ہے!! آدمیت کی نشانی شرع اور شرع سے متعلقہ امور کی تعظیم کرنا ہے، اور ابلیسیت کی نشانی عقل میں غلو، شرع پر اس کو مقدم کرنا اور شرع کے محافظین کو حقیر جاننا ہے
میں نے سر دست بس کچھ باتیں لکھ دی ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ مستقل موضوع ہے جو کہ تفصیل طلب ہے، کہ علوم عقلیہ والوں کے ہاں تکبر کے مظاہر، اسباب اور اس کی تاریخ وغیرہ کیا ہے