سوال (1452)

پیٹ کے بل لیٹنے سے متعلق احادیث ثابت ہیں یا ضعیف ہیں؟

جواب

اس سلسلے میں معروف کتبِ سنت میں مختلف احادیث وارد ہیں، امام ابن ماجہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے:

بَابُ النَّهْيِ عَنِ الِاضْطِجَاعِ عَلَى الْوَجْهِ

’چہرے کے بل لیٹنے کی ممانعت کا باب’
پھر اس کے تحت تین احادیث ذکر کی ہیں:

قال حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طِهْفَةَ الْغِفَارِيِّ، عَنْ أبيه قَالَ: أَصَابَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ عَلَى بَطْنِي، فَرَكَضَنِي بِرِجْلِهِ وَقَالَ: «مَا لَكَ وَلِهَذَا النَّوْمِ هَذِهِ نَوْمَةٌ يَكْرَهُهَا اللَّهُ – أَوْ يُبْغِضُهَا اللَّهُ -» [3723]

قیس بن طہفۃ الغفاری اپنے والد محترم سے ان کے ساتھ پیش آیا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مسجد میں پیٹ کے بل لیٹا ہوا پایا تو پاؤں سے ہلایا اور فرمایا: تمہارا اس نیند سے کیا تعلق؟ سونے کا یہ طریقہ ایسا ہے، جو اللہ کے ہاں ناپسندیدہ ہے۔
اس حدیث کو سند میں اضطراب وغیرہ کے سبب ضعیف قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ اس کی جتنی روایات ہیں ان میں قیس اور بن طہفۃ، باپ بیٹا دونوں کے نام مختلف طریقے سے وارد ہوئے ہیں، اسی طرح سند میں رواۃ کی کمی بیشی بھی ہے۔
امام ابن ماجہ نے دوسری روایت باين سند ومتن ذکر کی ہے:

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُجْمِرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ طِهْفَةَ الْغِفَارِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مُضْطَجِعٌ عَلَى بَطْنِي، فَرَكَضَنِي بِرِجْلِهِ وَقَالَ: «يَا جُنَيْدِبُ، إِنَّمَا هَذِهِ ضِجْعَةُ أَهْلِ النَّارِ». [3724]

ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے جبکہ میں پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا، آپ نے پاؤں سے ہلاتے ہوئے فرمایا: اے جندب! یہ اہلِ نار کے لیٹنے کا طریقہ ہے!
ایک تو اس حدیث کی سند وہی پہلے والی ہی ہے، یعنی یہ بھی ابن طہفۃ کی طرف ہی لوٹ آتی ہے! دوسرا اس میں اس سے پہلے بھی رواۃ پر کلام ہے، گویا اس سے مزید اس کے اضطراب و اختلاف میں اضافہ ہوتا ہے۔ پھر اس میں اسے ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے، جسے مزی وغیرہ اہل علم نے وہم قرار دیا ہے۔ اس روایت کے مختلف طرق اور ان میں اختلاف کو امام مزی نے تهذيب الكمال (13/375-376) اور ان سے پہلے ابراہیم الحربی، امام بخاری، ابو حاتم الرازی اور دارقطنی وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔ دیکھیں: [إكرام الضيف لإبراهيم الحربي (ص 37 – 39) والتاريخ الكبير (4/365-366) والأوسط (1/179-181) للبخاري والعلل لابن أبي حاتم (5/ 572 – 575) والعلل للدارقطني (9/ 300)]
جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ اس حدیث کی سند میں کثرتِ اختلاف کے باعث بعض اہل علم نے اسے مضطرب قرار دے کر چھوڑ دیا ہے، لیکن کئی ایک کبار ائمہ نے اس میں ترجیح دی ہے۔ چنانچہ امام ابراہیم الحربی اس میں اختلاف ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

«وَالْقَوْلُ عِنْدِي قَوْلُ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ طِهْفَةَ ، عَنْ أَبِيهِ. هَذَا الرَّجُلُ مِنْ غِفَارٍ ، قَدِمَ الْمَدِينَةَ ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى عَنَقِيَّةَ وَالصَّفْرَاءِ ، مَكَانٌ نَنْزِلُ فِيهَا… قُلْتُ لِعَلِيِّ: ابْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ طِخْفَةَ ، فَقَالَ: اسْمُهُ يَعِيشُ». [إكرام الضيف لإبراهيم الحربي ص38]

اس لحاظ درست سند یوں ہو گی: يعيش بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ طِهْفَةَ عَنْ أَبِيهِ… ألخ.
اسی طرح امام ابو حاتم نے بھی اسے مضطرب کہہ کر چھوڑنے کی بجائے اس میں ترجیح دی ہے اور فرمایا:

«رَوَاهُ ابنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ خالِهِ الحارث بن عبد الرحمن؛ قَالَ: دخلتُ أَنَا وَأَبُو سَلَمة عَلَى ابنِ طِهْفة ، فحدَّث عَنْ أَبِيهِ ؛ قَالَ: مَرَّ بِي وَأَنَا نائمٌ عَلَى وَجْهِي ؛ وَهُوَ الصَّحيح». [العلل لابن أبي حاتم 5/ 573 ت الحميد]

یہ روایت مسند احمد میں اس طرح ہے:

“قال حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا جَالِسٌ مَعَ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي غِفَارٍ ابْنٌ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ طِهْفَةَ، فَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: أَلَا تُخْبِرُنَا عَنْ خَبَرِ أَبِيكَ؟ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللهِ بْنُ طِهْفَةَ… خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم فَجَعَلَ يُوقِظُ النَّاسَ: ” الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ ” وَكَانَ إِذَا خَرَجَ يُوقِظُ النَّاسَ لِلصَّلَاةِ فَمَرَّ بِي وَأَنَا عَلَى وَجْهِي، فَقَالَ: ” مَنْ هَذَا؟ ” فَقُلْتُ: أَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ طِهْفَةَ. فَقَالَ: “إِنَّ هَذِهِ ضِجْعَةٌ يَكْرَهُهَا اللهُ”.

گویا یہ عَبْدُ اللهِ بْنُ طِهْفَةَ الغفاری رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے، جو ان سے ان کے بیٹے نے بیان کیا ہے۔ یہاں صحابی کا نام وہی ہے جو اوپر امام حربی نے راجح قرار دیا ہے، جبکہ بیٹے کا ذکر نہیں، لیکن ابراہیم الحربی نے جو ذکر کیا ہے، اس بنیاد پر اس کی تعیین ہو چکی ہے کہ وہ یعیش ہے۔ حافظ ابن حجر نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔ [تعجيل المنفعة 2/ 582 برقم 1460]
امام ابن ماجہ نے تیسری روایت یوں ذکر کی ہے:

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ رَجَاءٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ جَمِيلٍ الدِّمَشْقِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ الْقَاسِمَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَجُلٍ نَائِمٍ فِي الْمَسْجِدِ مُنْبَطِحٍ عَلَى وَجْهِهِ، فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ وَقَالَ: «قُمْ وَاقْعُدْ، فَإِنَّهَا نَوْمَةٌ جَهَنَّمِيَّةٌ». [3725]

ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو چہرے کے بل لیٹا ہوا تھا، آپ نے اسے پاؤں سے ہلایا اور فرمایا: کھڑے ہو کر بیٹھ جاؤ (یعنی اس طرح نہ لیٹو) کیونکہ یہ جہنمیوں کے لیٹنے کا طریقہ ہے۔
اس حدیث کی سند میں بھی اگرچہ کلام ہے، لیکن بہر صورت اس میں موجود ضعف ایسا ہے جو منجبر ہو سکتا ہے۔ امام بوصیری فرماتے ہیں:

«هَذَا إِسْنَاد فِيهِ مقَال الْوَلِيد بن جميل لينه أبوزرعة وَقَالَ أَبُو حَاتِم شيخ يروي عَن الْقَاسِم أَحَادِيث مُنكرَة وَقَالَ أَبُو دَاوُد لَيْسَ بِهِ بَأْس وَذكره ابْن حبَان فِي الثِّقَات وَسَلَمَة بن رَجَاء وَيَعْقُوب بن حميد مُخْتَلف فيهمَا». [مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه 4/ 117]

سنن ابن ماجہ کے ایک معاصر شارح لکھتے ہیں:

«وحكمه: الحسن؛ لأن فيه الوليد بن جميل، وهو مختلف فيه، وفيه سلمة بن رجاء ويعقوب بن حميد، وهما مختلف فيهما أيضًا…وغرضه: الاستشهاد به لحديث طخفة الغفاري. وجملة ما ذكره المؤلف في هذا الباب: ثلاثة أحاديث: الأول للاستدلال، والأخيران للاستشهاد». [شرح سنن ابن ماجه للهرري 22/ 93]

یعنی یہ حدیث اوپر والی حدیث کے ساتھ مل کر حسن لغیرہ کے درجے میں ہے۔
شیخ ضیاء الأعظمی نے بھی اس کی تحسین کی ہے، فرماتے ہیں:

«وإسناده حسن من أجل الوليد بن جميل والقاسم بن عبد الرحمن فإنهما مختلف فيهما غير أنهما حسنا الحديث ما لم يتبين خطؤهما». [الجامع الكامل في الحديث الصحيح الشامل المرتب على أبواب الفقه 11/ 617]

اسی طرح شعیب الارناؤوط وغیرہ محققین نے بھی مختلف مقامات پر اس کو حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔
شيخ البانی نے بھی اس کو حسن قرار دیا ہے۔
حافظ ابن القیم فرماتے ہیں کہ طبی لحاظ سے سونے کا بدترین طریقہ یہ ہے کہ انسان منہ کے بل لیٹے، اور پھر اسی ضمن میں اوپر والی حدیث بھی ذکر فرمائی۔ [زاد المعاد ط عطاءات العلم 4/ 345]
قدیم و جدید حکما نے الٹا لیٹنے کو کئی ایک بیماریوں کی علامت کے طور پر ذکر کیا ہے۔
ملا علی قاری نے منہ کے بل لیٹنے کی ممانعت کی توجیہ میں لکھا ہے:

«وَلَعَلَّ السَّبَبَ فِيهِ أَنَّهُ مُوَافِقٌ لِرُقَادِ اللُّوطِيَّةِ الْمُحَرِّكَةِ لِلنَّاظِرِ دَاعِيَةُ الشَّهْوَةِ النَّفْسِيَّةِ الشُّومِيَّةِ». [جمع الوسائل في شرح الشمائل 2/ 60]

یعنی یہ عمل بعض اخلاقی قباحتوں کا بھی ذریعہ بن سکتا ہے۔
ایک اور شارح لکھتے ہیں:

«ووجهُ النَّهْيِ عن ‌الاضطجاع ‌على ‌البطن: أنَّ ‌الاضطجاعَ ‌على ‌البطن مُضرٌّ في الطب، ووضع الصَّدْرِ والوجْهِ اللَّذان هما أشرفُ الأعضاءِ على الأرضِ إذلالٌ في غير السجود». [المفاتيح في شرح المصابيح للمظهري 5/ 144]

پیٹ کے بل لیٹا طبی اعتبار سے نقصان دہ ہے، اسی طرح سینے اور چہرے جیسے قابل اکرام اعضاء کو زمین پر لگانا یہ اہانت ہے، گو سجدہ کی حالت اس سے مستثنی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ پیٹ کے بل لیٹنے سے متعلق احادیث کی اسانید کلام سے خالی نہیں ہیں، بعض میں اضطراب بھی ہے، اسی وجہ سے بعض اہل علم نے مطلقا تمام احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے، جبکہ بعض نے مختلف احادیث و روایات کا تفصیلی مطالعہ کرکے اس میں قابل اعتماد و استشہاد روایات کی بنیاد پر اس حدیث کو قابل حجت سمجھا ہے، اور اسی بنیاد پر انہوں نے الٹا لیٹنے کو مکروہ خیال کیا ہے۔ یہی موقف زیادہ مضبوط محسوس ہوتا ہے۔ و اللہ اعلم۔

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ