سوال (1452)
پیٹ کے بل لیٹنے سے متعلق احادیث ثابت ہیں یا ضعیف ہیں؟
جواب
اس سلسلے میں معروف کتبِ سنت میں مختلف احادیث وارد ہیں، امام ابن ماجہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے:
بَابُ النَّهْيِ عَنِ الِاضْطِجَاعِ عَلَى الْوَجْهِ
’چہرے کے بل لیٹنے کی ممانعت کا باب’
پھر اس کے تحت تین احادیث ذکر کی ہیں:
قال حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طِهْفَةَ الْغِفَارِيِّ، عَنْ أبيه قَالَ: أَصَابَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ عَلَى بَطْنِي، فَرَكَضَنِي بِرِجْلِهِ وَقَالَ: «مَا لَكَ وَلِهَذَا النَّوْمِ هَذِهِ نَوْمَةٌ يَكْرَهُهَا اللَّهُ – أَوْ يُبْغِضُهَا اللَّهُ -» [3723]
قیس بن طہفۃ الغفاری اپنے والد محترم سے ان کے ساتھ پیش آیا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مسجد میں پیٹ کے بل لیٹا ہوا پایا تو پاؤں سے ہلایا اور فرمایا: تمہارا اس نیند سے کیا تعلق؟ سونے کا یہ طریقہ ایسا ہے، جو اللہ کے ہاں ناپسندیدہ ہے۔
اس حدیث کو سند میں اضطراب وغیرہ کے سبب ضعیف قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ اس کی جتنی روایات ہیں ان میں قیس اور بن طہفۃ، باپ بیٹا دونوں کے نام مختلف طریقے سے وارد ہوئے ہیں، اسی طرح سند میں رواۃ کی کمی بیشی بھی ہے۔
امام ابن ماجہ نے دوسری روایت باين سند ومتن ذکر کی ہے:
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُجْمِرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ طِهْفَةَ الْغِفَارِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مُضْطَجِعٌ عَلَى بَطْنِي، فَرَكَضَنِي بِرِجْلِهِ وَقَالَ: «يَا جُنَيْدِبُ، إِنَّمَا هَذِهِ ضِجْعَةُ أَهْلِ النَّارِ». [3724]
ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے جبکہ میں پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا، آپ نے پاؤں سے ہلاتے ہوئے فرمایا: اے جندب! یہ اہلِ نار کے لیٹنے کا طریقہ ہے!
ایک تو اس حدیث کی سند وہی پہلے والی ہی ہے، یعنی یہ بھی ابن طہفۃ کی طرف ہی لوٹ آتی ہے! دوسرا اس میں اس سے پہلے بھی رواۃ پر کلام ہے، گویا اس سے مزید اس کے اضطراب و اختلاف میں اضافہ ہوتا ہے۔ پھر اس میں اسے ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے، جسے مزی وغیرہ اہل علم نے وہم قرار دیا ہے۔ اس روایت کے مختلف طرق اور ان میں اختلاف کو امام مزی نے تهذيب الكمال (13/375-376) اور ان سے پہلے ابراہیم الحربی، امام بخاری، ابو حاتم الرازی اور دارقطنی وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔ دیکھیں: [إكرام الضيف لإبراهيم الحربي (ص 37 – 39) والتاريخ الكبير (4/365-366) والأوسط (1/179-181) للبخاري والعلل لابن أبي حاتم (5/ 572 – 575) والعلل للدارقطني (9/ 300)]
جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ اس حدیث کی سند میں کثرتِ اختلاف کے باعث بعض اہل علم نے اسے مضطرب قرار دے کر چھوڑ دیا ہے، لیکن کئی ایک کبار ائمہ نے اس میں ترجیح دی ہے۔ چنانچہ امام ابراہیم الحربی اس میں اختلاف ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«وَالْقَوْلُ عِنْدِي قَوْلُ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ طِهْفَةَ ، عَنْ أَبِيهِ. هَذَا الرَّجُلُ مِنْ غِفَارٍ ، قَدِمَ الْمَدِينَةَ ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى عَنَقِيَّةَ وَالصَّفْرَاءِ ، مَكَانٌ نَنْزِلُ فِيهَا… قُلْتُ لِعَلِيِّ: ابْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ طِخْفَةَ ، فَقَالَ: اسْمُهُ يَعِيشُ». [إكرام الضيف لإبراهيم الحربي ص38]
اس لحاظ درست سند یوں ہو گی: يعيش بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ طِهْفَةَ عَنْ أَبِيهِ… ألخ.
اسی طرح امام ابو حاتم نے بھی اسے مضطرب کہہ کر چھوڑنے کی بجائے اس میں ترجیح دی ہے اور فرمایا:
«رَوَاهُ ابنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ خالِهِ الحارث بن عبد الرحمن؛ قَالَ: دخلتُ أَنَا وَأَبُو سَلَمة عَلَى ابنِ طِهْفة ، فحدَّث عَنْ أَبِيهِ ؛ قَالَ: مَرَّ بِي وَأَنَا نائمٌ عَلَى وَجْهِي ؛ وَهُوَ الصَّحيح». [العلل لابن أبي حاتم 5/ 573 ت الحميد]
یہ روایت مسند احمد میں اس طرح ہے:
“قال حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا جَالِسٌ مَعَ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ مِنْ بَنِي غِفَارٍ ابْنٌ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ طِهْفَةَ، فَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: أَلَا تُخْبِرُنَا عَنْ خَبَرِ أَبِيكَ؟ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللهِ بْنُ طِهْفَةَ… خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم فَجَعَلَ يُوقِظُ النَّاسَ: ” الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ ” وَكَانَ إِذَا خَرَجَ يُوقِظُ النَّاسَ لِلصَّلَاةِ فَمَرَّ بِي وَأَنَا عَلَى وَجْهِي، فَقَالَ: ” مَنْ هَذَا؟ ” فَقُلْتُ: أَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ طِهْفَةَ. فَقَالَ: “إِنَّ هَذِهِ ضِجْعَةٌ يَكْرَهُهَا اللهُ”.
گویا یہ عَبْدُ اللهِ بْنُ طِهْفَةَ الغفاری رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے، جو ان سے ان کے بیٹے نے بیان کیا ہے۔ یہاں صحابی کا نام وہی ہے جو اوپر امام حربی نے راجح قرار دیا ہے، جبکہ بیٹے کا ذکر نہیں، لیکن ابراہیم الحربی نے جو ذکر کیا ہے، اس بنیاد پر اس کی تعیین ہو چکی ہے کہ وہ یعیش ہے۔ حافظ ابن حجر نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔ [تعجيل المنفعة 2/ 582 برقم 1460]
امام ابن ماجہ نے تیسری روایت یوں ذکر کی ہے:
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ رَجَاءٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ جَمِيلٍ الدِّمَشْقِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ الْقَاسِمَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَجُلٍ نَائِمٍ فِي الْمَسْجِدِ مُنْبَطِحٍ عَلَى وَجْهِهِ، فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ وَقَالَ: «قُمْ وَاقْعُدْ، فَإِنَّهَا نَوْمَةٌ جَهَنَّمِيَّةٌ». [3725]
ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ایک آدمی کے پاس سے گزرے جو چہرے کے بل لیٹا ہوا تھا، آپ نے اسے پاؤں سے ہلایا اور فرمایا: کھڑے ہو کر بیٹھ جاؤ (یعنی اس طرح نہ لیٹو) کیونکہ یہ جہنمیوں کے لیٹنے کا طریقہ ہے۔
اس حدیث کی سند میں بھی اگرچہ کلام ہے، لیکن بہر صورت اس میں موجود ضعف ایسا ہے جو منجبر ہو سکتا ہے۔ امام بوصیری فرماتے ہیں:
«هَذَا إِسْنَاد فِيهِ مقَال الْوَلِيد بن جميل لينه أبوزرعة وَقَالَ أَبُو حَاتِم شيخ يروي عَن الْقَاسِم أَحَادِيث مُنكرَة وَقَالَ أَبُو دَاوُد لَيْسَ بِهِ بَأْس وَذكره ابْن حبَان فِي الثِّقَات وَسَلَمَة بن رَجَاء وَيَعْقُوب بن حميد مُخْتَلف فيهمَا». [مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه 4/ 117]
سنن ابن ماجہ کے ایک معاصر شارح لکھتے ہیں:
«وحكمه: الحسن؛ لأن فيه الوليد بن جميل، وهو مختلف فيه، وفيه سلمة بن رجاء ويعقوب بن حميد، وهما مختلف فيهما أيضًا…وغرضه: الاستشهاد به لحديث طخفة الغفاري. وجملة ما ذكره المؤلف في هذا الباب: ثلاثة أحاديث: الأول للاستدلال، والأخيران للاستشهاد». [شرح سنن ابن ماجه للهرري 22/ 93]
یعنی یہ حدیث اوپر والی حدیث کے ساتھ مل کر حسن لغیرہ کے درجے میں ہے۔
شیخ ضیاء الأعظمی نے بھی اس کی تحسین کی ہے، فرماتے ہیں:
«وإسناده حسن من أجل الوليد بن جميل والقاسم بن عبد الرحمن فإنهما مختلف فيهما غير أنهما حسنا الحديث ما لم يتبين خطؤهما». [الجامع الكامل في الحديث الصحيح الشامل المرتب على أبواب الفقه 11/ 617]
اسی طرح شعیب الارناؤوط وغیرہ محققین نے بھی مختلف مقامات پر اس کو حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔
شيخ البانی نے بھی اس کو حسن قرار دیا ہے۔
حافظ ابن القیم فرماتے ہیں کہ طبی لحاظ سے سونے کا بدترین طریقہ یہ ہے کہ انسان منہ کے بل لیٹے، اور پھر اسی ضمن میں اوپر والی حدیث بھی ذکر فرمائی۔ [زاد المعاد ط عطاءات العلم 4/ 345]
قدیم و جدید حکما نے الٹا لیٹنے کو کئی ایک بیماریوں کی علامت کے طور پر ذکر کیا ہے۔
ملا علی قاری نے منہ کے بل لیٹنے کی ممانعت کی توجیہ میں لکھا ہے:
«وَلَعَلَّ السَّبَبَ فِيهِ أَنَّهُ مُوَافِقٌ لِرُقَادِ اللُّوطِيَّةِ الْمُحَرِّكَةِ لِلنَّاظِرِ دَاعِيَةُ الشَّهْوَةِ النَّفْسِيَّةِ الشُّومِيَّةِ». [جمع الوسائل في شرح الشمائل 2/ 60]
یعنی یہ عمل بعض اخلاقی قباحتوں کا بھی ذریعہ بن سکتا ہے۔
ایک اور شارح لکھتے ہیں:
«ووجهُ النَّهْيِ عن الاضطجاع على البطن: أنَّ الاضطجاعَ على البطن مُضرٌّ في الطب، ووضع الصَّدْرِ والوجْهِ اللَّذان هما أشرفُ الأعضاءِ على الأرضِ إذلالٌ في غير السجود». [المفاتيح في شرح المصابيح للمظهري 5/ 144]
پیٹ کے بل لیٹا طبی اعتبار سے نقصان دہ ہے، اسی طرح سینے اور چہرے جیسے قابل اکرام اعضاء کو زمین پر لگانا یہ اہانت ہے، گو سجدہ کی حالت اس سے مستثنی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ پیٹ کے بل لیٹنے سے متعلق احادیث کی اسانید کلام سے خالی نہیں ہیں، بعض میں اضطراب بھی ہے، اسی وجہ سے بعض اہل علم نے مطلقا تمام احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے، جبکہ بعض نے مختلف احادیث و روایات کا تفصیلی مطالعہ کرکے اس میں قابل اعتماد و استشہاد روایات کی بنیاد پر اس حدیث کو قابل حجت سمجھا ہے، اور اسی بنیاد پر انہوں نے الٹا لیٹنے کو مکروہ خیال کیا ہے۔ یہی موقف زیادہ مضبوط محسوس ہوتا ہے۔ و اللہ اعلم۔
فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ
سوال: پیٹ کے بل لیٹنے (منہ کے بل لیٹنے) کے بارے میں بعض روایات وارد ہوئی ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے یا یہ جہنمیوں کا لیٹنے کا انداز ہے۔ مہربانی فرما کر درج ذیل باتوں کی وضاحت فرما دیں:
1: کیا یہ روایات سنداً ثابت ہیں؟
2: کیا امام بخاری یا دیگر محدثین نے کسی راوی پر جرح کی ہے؟
3: فقہی لحاظ سے اس طرزِ لیٹنے کا حکم کیا ہے؟ کیا یہ مکروہ ہے یا جائز ہے؟
جواب: پیٹ کے بل سونے کے متعلق جو روایات ہیں وہ ضعیف ومعلول ہیں ان میں سے سب سے بہتر نظر آنے والی سند و روایت حدیث أبی ھریرہ ہے لیکن وہ ائمہ علل ونقاد کے نزدیک صحیح نہیں ہے نہ اسے ان سے منسوب کرنا صحیح ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻛﺮﻳﺐ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪﺓ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ، ﻭﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻴﻢ، ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻗﺎﻝ: ﺭﺃﻯ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺭﺟﻼ ﻣﻀﻄﺠﻌﺎ ﻋﻠﻰ ﺑﻄﻨﻪ ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻥ ﻫﺬﻩ ﺿﺠﻌﺔ ﻻ ﻳﺤﺒﻬﺎ اﻟﻠﻪ، سنن ترمذی :(2768)
اس روایت کے بعد امام ترمذی کہتے ہیں:
ﻭﺭﻭﻯ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ، ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﻳﻌﻴﺶ ﺑﻦ ﻃﻬﻔﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺑﺸﺮ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻗﺎﻝ: ﻣﺮ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﺮﺟﻞ ﻣﻀﻄﺠﻊ ﻋﻠﻰ ﺑﻄﻨﻪ، ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻥ ﻫﺬﻩ لضجعة ﻣﺎ ﻳﺤﺒﻬﺎ اﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ، مسند أحمد بن حنبل: (7862)
ﻭﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺑﺸﺎﺭ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺧﻠﻴﻔﺔ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻗﺎﻝ: ﻣﺮ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻋﻠﻰ ﺭﺟﻞ ﻣﻀﻄﺠﻊ ﻋﻠﻰ ﺑﻄﻨﻪ ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻥ ﻫﺬﻩ ﺿﺠﻌﺔ ﻻ ﻳﺤﺒﻬﺎ اﻟﻠﻪ.
ﻭﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺼﻦ اﻟﺤﺪﺭﻱ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻳﺰﻳﺪ ﺑﻦ ﺯﺭﻳﻊ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﺑﻨﺤﻮﻩ. مسند بزار: 7982، 7983)
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ اﻷﺯﺩﻱ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﻴﺴﻰ ﺑﻦ ﻳﻮﻧﺲ، ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻗﺎﻝ: ﻣﺮ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻋﻠﻰ ﺭﺟﻞ ﻣﻀﻄﺠﻊ ﻋﻠﻰ ﺑﻄﻨﻪ، ﻓﻐﻤﺰﻩ ﺑﺮﺟﻠﻪ، ﻭﻗﺎﻝ: ﺇﻥ ﻫﺬﻩ ﺿﺠﻌﺔ ﻻ ﻳﺤﺒﻬﺎ اﻟﻠﻪ، صحیح ابن حبان :(5549)
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ، ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻗﺎﻝ: ﻣﺮ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﺮﺟﻞ ﻣﻀﻄﺠﻊ ﻋﻠﻰ ﺑﻄﻨﻪ ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻥ ﻫﺬﻩ ﻟﺿﺠﻌﺔ ﻻ ﻳﺤﺒﻬﺎ الله حديث هشام بن عمار:(94)
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺠﺒﺎﺭ، ﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ، ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺭﺃﻯ ﺭﺟﻼ ﻣﻨﺒﻄﺤﺎ ﻋﻠﻰ ﻭﺟﻬﻪ، ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻥ ﻫﺬﻩ ﻟﺿﺠﻌﺔ ﻣﺎ ﻳﺤﺒﻬﺎ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ
اﻟﺜﺎﻧﻲ ﻣﻦ اﻟﻔﻮاﺋﺪ اﻟﻤﻨﺘﻘﺎﺓ لابن السماك: (36)، اﻟﺠﺰء اﻷﻭﻝ ﻣﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﺃﺑﻲ ﻋﻠﻲ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺷﺎﺫاﻥ:(21)
اور دیکھیے مستدرک حاکم: (7709) الآداب للبیھقی: (672) امام بیھقی نے اس سند ومتن کو نقل کرنے کے بعد دوسرے طریق وسند سے روایت کو صواب قرار دیا ہے جو ﻋﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ، ﺃﻥ ﻳﻌﻴﺶ ﺑﻦ ﻃﺨﻔﺔ ﺣﺪﺛﻪ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ کے طریق سے ہے۔الآداب للبیھقی (673)
یعنی حدیث أبی ھریرہ ان کے نزدیک صحیح نہیں بلکہ معلول ہے
اور کہا:
ﻛﺬا ﻗﺎﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻭﻏﻠﻂ ﻓﻴﻪ
شعب الإيمان للبيهقى:(4394)
حافظ ابن رجب کہتے ہیں:
ﻭﺧﺮﺝ اﻟﺘﺮﻣﺬﻱ ﺑﻌﻀﻪ ﻣﻦ ﺭﻭاﻳﺔ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ
ﻭﻗﻴﻞ: ﺃﻧﻪ ﻭﻫﻢ، ﻭاﻟﺼﻮاﺏ: ﺭﻭاﻳﺔ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ، ﻭﻗﺪ اﺧﺘﻠﻒ ﻋﻠﻴﻪ ﻓﻲ ﺇﺳﻨﺎﺩﻩ
فتح البارى لابن رجب:3/ 262
حافظ بوصیری نے کہا:
ﻭﻗﺪ ﺗﻜﻠﻢ اﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﻓﻲ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ
إتحاف الخيرة المهرة:6/ 121
امام ابن أبی حاتم الرازی نے کہا:
ﻭﺳﺄﻟﺖ ﺃﺑﻲ ﻋﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﺭﻭاﻩ ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ: ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ صلی الله علیہ وسلم ﻣﺮ ﺑﺮﺟﻞ ﻣﻀﻄﺠﻊ ﻋﻠﻰ ﺑﻄﻨﻪ ﻓﻘﺎﻝ: ﻫﺬﻩ ﺿﺠﻌﺔ ﻻ ﻳﺤﺒﻬﺎ اﻟﻠﻪ؟ ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻲ: ﻟﻪ ﻋﻠﺔ ﻗﻠﺖ: ﻭﻣﺎ ﻫﻮ؟
ﻗﺎﻝ: ﺭﻭاﻩ اﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺫﺋﺐ، ﻋﻦ ﺧﺎﻟﻪ اﻟﺤﺎﺭﺙ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ؛ ﻗﺎﻝ: ﺩﺧﻠﺖ ﺃﻧﺎ ﻭﺃﺑﻮ ﺳﻠﻤﺔ ﻋﻠﻰ اﺑﻦ ﻃﻬﻔﺔ، ﻓﺤﺪﺙ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻗﺎﻝ: ﻣﺮ ﺑﻲ ﻭﺃﻧﺎ ﻧﺎﺋﻢ ﻋﻠﻰ ﻭﺟﻬﻲ؛ ﻭﻫﻮ اﻟﺼﺤﻴﺢ
علل الحدیث لابن أبي حاتم الرازى:5/ 572 ،573(2186)علل أخبار رويت في الآداب والطب
امام ابن أبی حاتم الرازی نے کہا:
ﻭﺳﺄﻟﺖ ﺃﺑﻲ ﻋﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﺭﻭاﻩ ﻋﺒﺪ اﻟﻌﺰﻳﺰ اﻟﺪﺭاﻭﺭﺩﻱ، ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ اﺑﻦ ﺣﻠﺤﻠﺔ اﻟﺪﺅﻟﻲ، ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﻋﻄﺎء اﻟﻌﺎﻣﺮﻱ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ؛ ﻗﺎﻝ: ﺧﺮﺝ ﻋﻠﻴﻨﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ صلی الله علیہ وسلم ﻭﺃﻧﺎ ﻣﻨﻜﺐ ﻋﻠﻰ ﻭﺟﻬﻲ ﻧﺎﺋﻢ، ﻓﺄﻗﺮﻋﻨﻲ، ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: ﻫﺬﻩ ﺿﺠﻌﺔ ﻳﺒﻐﻀﻬﺎ اﻟﻠﻪ؟
ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻲ: ﺇﻧﻤﺎ ﻫﻮ: ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﻋﻄﺎء، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻃﺨﻔﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ؛ ﻗﺎﻝ: ﻣﺮ ﺑﻲ اﻟﻨﺒﻲ صلی الله علیہ وسلم
علل الحديث لابن أبي حاتم الرازى: 5/ 574 ،575(2187) علل أخبار رويت في الآداب والطب اور دیکھئیے علل الحدیث :(2305)6/ 47 ،48 ( امام أبو حاتم الرازی کے معلول بتانے کے سبب اس روایت کو محدث مقبل بن هادى رحمة الله عليه نے أحاديث معلة ظاهرها الصحة:(434) میں نقل کیا ہے۔
العلل للدارقطنى سے تفصیل ملاحظہ فرمائیں
ﻭﺳﺌﻞ ﻋﻦ ﺣﺪﻳﺚ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ: ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺩﺧﻞ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﻭﺭﺟﻞ ﻧﺎﺋﻢ ﻋﻠﻰ ﻭﺟﻬﻪ ﻓﺮﻛﻀﻪ ﺑﺮﺟﻠﻪ، ﻭﻗﺎﻝ: ﻗﻢ ﻓﺈﻥ ﻫﺬﻩ ﺿﺠﻌﺔ ﻳﺒﻐﻀﻬﺎ اﻟﻠﻪ.
ﻓﻘﺎﻝ: ﻳﺮﻭﻳﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻗﺎﻝ ﺫﻟﻚ ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺔ، ﻭﻋﻴﺴﻰ ﺑﻦ ﻳﻮﻧﺲ، ﻭاﻟﻨﻀﺮ ﺑﻦ ﺷﻤﻴﻞ، ﻭﺃﺑﻮ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ، ﻭﻋﺒﺪﺓ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ، ﻭاﻟﻔﻀﻞ ﺑﻦ ﻣﻮﺳﻰ اﻟﺴﻴﻨﺎﻧﻲ، ﻭﺷﺠﺎﻉ ﺑﻦ اﻟﻮﻟﻴﺪ، ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺑﺸﺮ.
ﻭﺭﻭاﻩ ﻣﻌﺘﻤﺮ، ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ ﻣﺮﺳﻼ، ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ.
ﻭﻏﻴﺮﻩ ﻳﺮﻭﻳﻪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻃﻬﻔﺔ اﻟﻐﻔﺎﺭﻱ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ…
ﻭﻫﻮ اﻟﺼﻮاﺏ ﻭﺭﻭﻯ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺣﻠﺤﻠﺔ، ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﻋﻄﺎء، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻭﻗﻴﻞ: ﻋﻨﻪ، ﻋﻦ ﻋﻄﺎء، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻭﻻ ﻳﺼﺢ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻭﺇﻧﻤﺎ ﺭﻭاﻩ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﻋﻄﺎء، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻃﻬﻔﺔ ﺃﻳﻀﺎ
العلل للدارقطني: 9/ 299 ،300(1776)
دیکھ لیجیے امام دارقطنی جیسے علل حدیث کے ماہر امام نے بھی بتایا کہ یہ روایت ابو ھریرہ رضی الله عنہ سے صحیح نہیں ہے۔
امام بخاری نے
ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻛﺜﻴﺮ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ ﻋﻦ ﻳﻌﻴﺶ ﺑﻦ ﻃﺨﻔﺔ اﻟﻐﻔﺎﺭﻱ ﺃﻥ ﺃﺑﺎﻩ ﺃﺧﺒﺮﻩ کے طریق سے مروی روایت کو مزید طرق سے ذکر کیا اور کہا: ﻭﻗﺎﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﺤﻮﻩ ﻭﻻ ﻳﺼﺢ
التاريخ الأوسط: (682)1/ 152
اور کہا:
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺠﺎﺝ ﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻌﺰﻳﺰ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺣﻠﺤﻠﺔ اﻟﺪﺑﻠﻰ ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﻋﻄﺎء ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﻻ ﻳﺼﺢ ﻓﻴﻪ ﺃﺑﻮ ﻫﺮﻳﺮﺓ
التاريخ الأوسط: (685)1/ 153اور طخفة الغفاری کے ترجمہ میں بھی امام بخاری نے یہی کہا التاريخ الكبير للبخاري: 4/ 366
محقق عبد الله زقيل اس بارے اپنا فیصلہ یوں بیان کرتے ہیں:
والذي يظهر والعلم عند الله أن كلام الإمامين البخاري وأبي حاتم مقدم على غيرهما لأنهما أئمة هذا الفن. فالحديث معلول، والله أعلم.
((بحوالہ: شبكة صيد الفوائد))
تو یہ روایت اصل میں طهفة،يا طخفة الغفاري سے مروی ہے اور اس میں اچھا خاصا اضطراب واختلاف پایا جاتا ہے۔
شیخ الأرنؤوط نے اس روایت کی تخریج وتعلیق میں کیا:
وهذا إسناد ضعيف لا ضطرابه ولجهالة ابن طخفة
مسند أحمد بن حنبل:(15543)
راجح اس روایت کا ضعیف ومعلول ہونا ہی یے۔
جو تفصیل سے دراسہ کرے گا وہ اسی نتیجہ پر پہنچے گا۔
البتہ سلف صالحین سے امام محمد بن سیرین نے اس طرح لیٹنے کو ناپسند جانا ہے۔
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ، ﻋﻦ ﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﺃﻳﻮﺏ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﺳﻴﺮﻳﻦ، ﻗﺎﻝ: ﻳﻜﺮﻩ ﻟﻠﺮﺟﻞ ﺃﻥ ﻳﻀﻄﺠﻊ ﻋﻠﻰ ﺑﻄﻨﻪ، ﻭاﻟﻤﺮﺃﺓ ﻋﻠﻰ ﻗﻔﺎﻫﺎ
جامع معمر بن راشد:(19803) صحيح
اس طرح سے لیٹنا باسند صحیح رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم اور تعامل صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین سے ہمیں نہیں ملتا ہے بلا عذر شرعی اس سے اجتناب کرنا چاہیے ہے کیونکہ یہ سونے کا انداز مستحسن وخیر والا نہیں معلوم ہوتا ہے۔ هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ