سوال (3325)
ایک صاحب نے یہ واقعہ بیان فرمایا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک پسند کی عورت سے شادی کی اور شب زفاف کی رات کو فجر کی نماز میں جماعت میں شرکت نہ کی، حضرت نے دریافت فرمایا کہ آپ جماعت میں شریک نہیں ہوئے، کیا وجہ بنی؟ بیٹے نے عرض کیا: گھر میں نماز پڑھ لی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔ بیٹا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا کہ کیا کروں؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طلاق دے دو۔ کیا یہ واقعہ درست ہے؟
جواب
اس حوالے سے یہ حدیث ملتی ہے:
“عن حمزةَ بن عبد الله بن عمر عن أبيه، قال: كانت تحتي امرأةٌ، وكنتُ أحبُّها، وكان عُمرُ يكرهُها، فقال لي: طلِّقْها، فأبَيتُ، فأتى عُمَرُ النبيَّ صلى الله عليه وسلم، فذكر ذلك له، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: “طلِّقْها”. [سنن أبي داود:5138]
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے عقدے نکاح میں ایک عورت تھی، جسے میں پسند کرتا تھا جبکہ عمر رضی اللہ عنہ اس کو ناپسند خیال کرتے تھے، لہذا انہوں نے مجھے حکم دیا کہ اس کو طلاق دے دو، لیکن میں نے ٹال مٹول کی تو عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ معاملہ ذکر کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ اس کو طلاق دے دو.
بعض دیگر روایات میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اپنے والد کی اطاعت کرو اور اس عورت کو طلاق دے دو، لہذا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے طلاق دے دی.
اس واقعے میں طلاق دینے کا حکم ہے اور یقینا عمر رضی اللہ عنہ نے طلاق کا حکم کسی معتبر مصلحت کی بنیاد پر ہی دیا ہو گا، ورنہ بلا وجہ بیٹے کو طلاق پر مجبور کرنا عمر رضی اللہ عنہ جیسی شخصیت کے لائق نہیں.
علامہ سندی لکھتے ہیں:
في الحديث أن طاعة الوالدين متقدمة على هوى النفس إذا كان أمرهما أوفق في الدين إذ الظاهر أن عمر ما كان يكرهها، ولا أمر ابنه بطلاقها إلا لما يظهر له فيها من قلة الدين.
ابن رسلان لکھتے ہیں:
«قيل: إن أول من أمر ابنه بطلاق زوجته إبراهيم الخليل عليه السلام، ومن بر الابن بأبيه أن يكره ما كره أبوه، وإن كان يحبه، وكذا من بره أن يحب ما يحب أبوه، وإن كان له كارهًا، هذا إن كان الأب من أهل الدين، يحب في اللَّه ويبغض في اللَّه، ولم يكن ذا هوى.». [شرح سنن أبي داود لابن رسلان 19/ 417]
ایک اور شارح فرماتے ہیں:
«أورده أبو داود في البر؛ وذلك أن فيه تحقيق رغبة الوالد في هذا الطلب، لكن كما هو معلوم أن الذي طلب الطلاق من ولده هو خير هذه الأمة بعد أبي بكر رضي الله تعالى عنه، وليس كل الآباء وكل الأمهات عدول وأتقياء، بل يمكن أن يكون هناك شيء من الشحناء أو العداوة لأمور دنيويه غير دينية، فينظر في ذلك إلى العدل ومعرفة الحق مع من يكون، فقد تكون الزوجة مظلومة والأم ظالمة، وقد يكون الوالد ظالماً والزوجة مظلومة، فينظر في ذلك إلى العدل وإلى الدين.
وقد تكون كراهية الوالد أو الوالدة للزوجة لأمور ليست دينية، وإنما لكلمة من الكلمات أو حالة من الحالات أو موقف من المواقف، فيترتب على ذلك التنافر والتباعد، والذي ينبغي على الولد أن يكون في مثل هذه الحالة عادلاً، وأن يبين للوالد أو الوالدة إذا كانا ليسا على حق، وأنه يرى أن الحق ليس معهما، فيسعى إلى إرضائهما وإلى إقناعهما بالتي هي أحسن مع الإبقاء على زوجته، وأما إذا كانت الكراهية لأمر ديني، أو أن الأمر بلغ إلى حد لا يمكن معه التوفيق، فلا شك أن طاعة الوالد مطلوبة ورضاه مطلوب.
فإذاً: الذي ينبغي على الولد في مثل هذه الأمور أن يحرص على العدل، وأن يكون عوناً للمظلوم بأن يمنع وصول الظلم إليه، ويكون أيضاً عوناً للظالم بأن يكون حريصاً على منعه من الظلم، كما جاء في الحديث: (انصر أخاك ظالماً أو مظلوماً).
ولا يقال: إنه بناء على ما جاء في الحديث فكل رغبة تكون من أب أو أم لا يتردد فيها ولا يتوقف فيها، وإنما ينبغي أن يكون هناك نظر لحال الزوجة واستقامتها ودينها وصلاحها، وكذلك أيضاً فيما يتعلق بالأب أو الأم فقد يكون عند الأب والأم فسق أو نقص أو خلل.». [شرح سنن أبي داود للعباد 584/ 5 بترقيم الشاملة آليا]
لیکن بہرصورت اس واقعے میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ انہوں نے کس وجہ سے یہ حکم دیا؟ سوال میں جو کہا گیا کہ بیٹے نے بیوی کی وجہ سے نماز باجماعت میں کوتاہی کی، اس وجہ سے طلاق کا حکم دیا، اس کا کوئی اشارہ کنایہ اس حدیث یا اس کی شرح میں کہیں نہیں مل سکا. واللہ اعلم
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
بارک اللہ فیکم
مزید یہ کہ جمہور کے مؤقف کے مطابق اب اگر کوئی والد اپنے بیٹے سے مطالبہ کرے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو اس کے لیے ایسا جائز نہیں ہے۔ الا کہ شرعی عذر موجود ہو۔
ایسا امام ابن ابی یعلی رحمہ اللہ نے طبقات حنابلہ میں ذکر کیا ہے۔
انہوں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے تلامذہ کا ترجمہ حیات لکھتے ہوئے امام سندی ابوبکر الخواتیمی رحمہ اللہ کے حوالے سے ( جو کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پڑوسی بھی تھے) نقل کیا ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس ایک شخص آیا اور آ کر کہنے لگا کہ مجھے میرا باپ کہتا ہے کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں۔ اس پر امام احمد نے جواب دیا کہ تو طلاق نا دے۔ اس پر اس نے کہا کہ کیا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو نہیں کہا تھا کہ تو اپنی بیوی کو طلاق دے؟ اس پر امام احمد رحمہ اللہ نے اسے جواب دیا کہ ہاں اگر تیرا باپ عمر جیسا ہے۔(اور تو ابن عمر ہے تب تو ایسا ہو سکتا ہے)
یعنی ایسا ممکن نہیں ہے۔
یہی بات ابن باز اور ابن عثیمین رحمہما اللہ نے ذکر کی اور اسے راجح قرار دیا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث مجتبیٰ بن عارف حفظہ اللہ