سوال
عمرہ کے لیے قربانی کیوں نہیں کی جاتی؟ حالانکہ رسول اللہ ﷺ حدیبیہ والے عمرے میں قربانی کے جانور ساتھ لے کر گئے تھے۔ کیا کوئی ایسی حدیث ہے جس میں صراحت کے ساتھ یہ معلوم ہوتا ہو کہ عمرہ کرنے والے پر قربانی نہیں ہے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ کے بعد قربانی کرنا ثابت نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عمرہ جِعرانہ سے کیا، یا عمرۃ القضاء کیا، ان دونوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی نہیں کی۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عمرہ کے بعد قربانی کرنا سنت یا واجب عمل نہیں ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
“فَمَنۡ تَمَتَّعَ بِالۡعُمۡرَةِ اِلَى الۡحَجِّ فَمَا اسۡتَيۡسَرَ مِنَ الۡهَدۡىِ”. [البقرۃ: 196]
جو حج تک عمرے سے فائدہ اٹھائے تو قربانی میں سے جو میسر ہو کرے۔
اس آیت میں ہدی کا حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوں ادا کریں، چاہے وہ حجِ قران ہو یا حجِ تمتع ہو۔
لیکن جو شخص صرف عمرہ کرے، یا حجِ افراد کی نیت کرے، اس کے لیے قرآنِ مجید میں قربانی کا کوئی حکم نہیں آیا۔
اور جہاں تک صلح حدیبیہ کے موقع پر قربانی کا تعلق ہے، تو وہ قربانی دراصل عام ہدی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی مدینہ منورہ میں رہتے ہوئے بھی حرم کی طرف ہدی بھیج دیتے تھے، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
“كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهْدِي مِنَ الْمَدِينَةِ فَأَفْتِلُ قَلَائِدَ هَدْيِهِ، ثُمَّ لَا يَجْتَنِبُ شَيْئًا مِمَّا يَجْتَنِبُ الْمُحْرِمُ”. [صحیح مسلم: 1321]
رسول اللہ ﷺ مدینہ سے قربانی کے جانور بھیجا کرتے تھے، اور میں آپ کے جانوروں کے لیے ہار بٹتی تھی، پھر آپ کسی بھی ایسی چیز سے اجتناب نہ کرتے جس سے ایک احرام والا شخص اجتناب کرتا ہے۔
چنانچہ حدیبیہ کے موقع پر جو قربانی کی گئی، وہ عمرے کے ساتھ لازم قربانی کے طور پر نہیں بلکہ ھدی الحرم کے زمرے میں آتی ہے۔
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“هذه من السنن المندثرة, لكن ليس السنة أنك إذا اعتمرت اشتريت شاة وذبحتها السنة أن تسوق الشاة معك تأتي بها من بلادك، أو على الأقل من الميقات، أو من أدنى حل عند بعض العلماء ويسمى هذا سوق الهدي، أما أن تذبح بعد العمرة بدون سوق، فهذا ليس من السنة”. [مجموع فتاوى ورسائل العثيمين: 373/23]
یہ (ہدی کے جانور ساتھ لے جانا) ان سنتوں میں سے ہے جو ختم ہو چکی ہیں، لیکن یہ سنت نہیں کہ عمرہ کے بعد تم ایک بکری خرید کر ذبح کرو۔ سنت تو یہ ہے کہ قربانی کا جانور اپنے ساتھ لے کر چلو، چاہے اپنے وطن سے، یا کم از کم میقات سے یا ادنیٰ حل سے۔ اسے ‘سوق الہدی’ کہا جاتا ہے۔ لیکن عمرے کے بعد ہدی کے علاوہ ذبح کرنا سنت نہیں ہے۔
لہٰذا عمرہ کرنے والے کے لیے عمرہ کرنے کے بعد اس طرح قربانی ضروری نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ
 
					 
			 
							 
							 
							 
							 
							 
							




 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				 
				