سوال (549)

ایک شخص عمرے کی نیت سے سعودی عرب جا رہا ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ وہ جدہ ایئرپورٹ پر اتر کر دو تین دن جدہ قیام کرے پھر مکہ جائے تو کیا ایسا شخص احرام کہاں سے باندھے گا کیا وہ میقات سے بغیر احرام کے گزر سکتا ہے؟

جواب

جس آدمی کا عمرہ کرنے کا ارادہ ہے ، وہ احرام کے بغیر میقات سےتجاوز نہ کرے۔ جدہ یا مکے جا کر جس قدر ضرورت ہو آرام و قیام کرے اور پھر جا کر عمرہ کر لے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

عمرہ کی نیت کیساتھ میقات سے بغیر احرام کے نہیں گزر سکتا۔احرام میقات سے باندھ کر جدہ کام نمٹا لے۔ ورنہ بغیر احرام اور بغیر نیت عمرہ کے میقات سے گزر کر کام مکمل کر لے اور پھر قریبی میقات پر جا کر احرام باندھ کر نیت کرے پھر مکہ داخل ہو۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

سوال: سوال(۵۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: اگر کوئی شخص میقات سے احرام باندھے بغیر گذر گیا، تو کیا اس پر حج وعمرہ کرنا واجب ہوجائے گا؟ کیا اس کے لئے میقات واپس آکر دوبارہ احرام باندھنا ضروری ہوگا؟ یا جس جگہ پر وہ موجود ہو، وہیں سے احرام کی نیت کرکے تلبیہ کہنا کافی ہوگا؟

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:

میقات سے باہر رہنے والا مکلف مسلمان اگر مکہ (یا حدودِ حرم) کے لئے عازم سفر ہو خواہ یہ سفر کسی بھی مقصد سے ہو، اور وہ میقات سے احرام باندھے بغیر گذرجائے تو اس پر حج یا عمرہ کی ادائیگی اور احرام باندھنے کے لئے میقات کی طرف لوٹنا واجب ہے، اگر وہ احرام باندھنے کے لئے میقات نہیں لوٹے گا، یا میقات سے تجاوز کرجانے کے بعد احرام باندھے گا تو بہرصورت وہ گنہگار ہوگا اوردم بھی لازم ہوگا، اور بغیر کسی عذر کے حدودِ میقات کے اندر احرام باندھنے کا گناہ الگ ہوگا؛ البتہ اگر کوئی عذر درپیش ہو مثلاً وقت تنگ پڑنے یا رفقاء سفر سے بچھڑجانے کا خوف ہونے کی وجہ سے میقات تک واپس آئے بغیر احرام باندھ لیا، تو اس پر صرف میقات سے بلااحرام گذرنے کا گناہ ہوگا، واپس نہ لوٹنے کا گناہ نہ ہوگا؛ لیکن میقات سے احرام نہ باندھنے کی وجہ سے دم لازم ہوگا۔

عن سعید بن جبیر عن ابن عباس رضي اللّٰه عنهما أن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم قال: لا تجاوزوا المواقیت إلا بإحرام۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۴؍۵۲ بیروت)

عن سعید بن جبیر رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا یجاوز أ؛د الوقت إلا محرم۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۸؍۷۰۲ رقم: ۱۵۷۰۲ المجلس العلمي)

عن داؤد عن مجاهد أنه قال له: إذا جئتَ من بلد آخر فلا تجاوز الحدَّ حتی تحرم۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۸؍۷۰۳ رقم: ۱۵۷۰۴ المجلس العلمي)

وأخرج البیهقي بلفظ: ’’لا یدخل أحد مکة إلا محرم‘‘ قال الحافظ: إسنادہ جید۔ (نیل الأوطار ۴؍۱۸۱، إعلاء السنن ۱۰؍۲۱ رقم: ۲۵۶۴ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

عن ابن عباس رضي اللّٰه عنه قال: إذا جاوز الوقت فلم یحرم حتی دخل مکة رجع إلی الوقت فأحرم، وإن خشي إن رجع إلی الوقت فإنه یحرم ویهریق لذلک دماً۔ (فتح القدیر ۲؍۴۲۶-۴۳۳ بیروت)

اٰفاقي مسلم مکلف أراد دخول مکة أو الحرم ولو لتجارة أو سیاحة وجاوز اٰخر مواقیته غیر محرم، ثم أحرم أو لم یحرم أثم، ولزمه دم وعلیه العود إلی میقاته الذي جاوزہ۔ (غنیۃ الناسک ۶۰، ومثلہ في الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۵۳)

ومن دخل أي من أهل الاٰفاق مکة أو الحرم بغیر إحرام فعلیه أحد النسکین أي من الحج والعمرۃ، وکذا علیه دم المجاوزة أو العود۔ (مناسک ملا علي قاري ۸۷، ومثلہ في البحر العمیق ۳؍۶۱۸، درمختار ۳؍۶۲۶ زکریا، الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۵۵۲ زکریا)

فإن لم یعد ولا عذر له أثم اخریٰ لترکه العود الواجب۔ (غنیۃ الناسک ۶۰، ومثلہ في الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۵۵۲، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۵۳، درمختار ۳؍۶۲۱ زکریا)

فإن کان له عذر کخوف الطریق، أو الانقطاع عن الرفقة، أو ضیق الوقت أو مرض شاق ونحو ذٰلک فاحرم من موضعه ولم یعد إلیه لم یأثم بترک العود وعلیه الاثم والدم بالاتفاق۔ (غنیۃ الناسک ۶۰، البحر العمیق ۳؍۶۱۹، الدر المختار ۳؍۶۲۲، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۲۵۳) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری ۶؍۳؍۱۴۳۶ھ

الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ [کتاب النوازل جلد : 7]

اس کا مسکت جواب جلد از جلد عنایت فرمائیں۔

جواب: احناف کا موقف یہ ہے کہ آپ اپنے کام سے بھی جائیں گے تو حدود حرم سے احرام کے ساتھ گذریں گے، سلفی حضرات یہ موقف ہے کہ جب آپ حج و عمرہ کے لیے جائیں گے تو احرام کے ساتھ داخل ہونگے، اگر آپ نسیان یا جھل کی وجہ سے میقات کراس کر گئے، آگے چلے گئے، آپ نے احرام نہیں لیا ہے، نیت نہیں کی ہے، آپ کو واپس آنا ہوگا، احرام و نیت کے ساتھ جائیں گے، اگر آپ واپس نہیں جا سکتے ہیں تو آپ پر فدیہ ہوگا، دم لازم ہوگا، اس بات کا خلاصہ یہ ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ