عزیر شمس صاحب کو بچھڑے ایک سال ہوگیا۔ بیت الحکمت ایک مخلص سرپرست سے محروم ہو گیا۔
13 سال پہلے اکتوبر کے مہینے میں صاحب بیت الحکمت پروفیسر عبد الجبار شاکر اس دنیا سے رخصت ہوئے اور اس اکتوبر میں بیت الحکمت کی سیرت لائبریری کے ایک بہترین معاون اور مخلص اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ میری مراد محترم محمد عزیر شمس سے ہے۔
عزیر شمس صاحب کی شخصیت ،علمی اور تحقیقی خدمات پر کتابیں شائع ہوں گی اور میرے جیسا شخص تو اس پر لکھنے کے لیے اپنے آپ کو انتہائی چھوٹا محسوس کرتا ہے۔ میں تو صرف والد محترم، بیت الحکمت اور اپنے ساتھ تعلق کے حوالے سے کچھ یادیں لکھنے کی کوشش کروں گا۔
1987 میں عزیر شمس صاحب پاکستان تشریف لائے اور انھوں نے شیخوپورہ میں ہماری رہائش گاہ فقیر خانہ پر موجود عربی فارسی مخطوطات دیکھے۔ لیکن اس وقت ان کی تعداد سیکڑوں میں تھی جو بعد میں ہزاروں تک پہنچی۔ والد محترم سفر حج پر گئے تو وہاں سے عربی میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کتابیں لے کر آئے۔ مکہ مکرمہ میں عربی کتابوں کی خریداری اور ہر دکان پر لسٹ کی مدد سے دیکھنا کہ یہ کتاب بیت الحکمت میں موجود ہے کہ نہیں، یہ ہمارے محترم عزیر شمس کی ہوتی۔ کچھ سالوں کے بعد والد محترم ہر سال حج پر جاتے اور عزیر شمس صاحب ہر سال یہ ڈیوٹی نبھاتے۔ 2006 کے آخر پر میں حج پر گیا تو میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی۔ ہم نے بہت سے مکتبہ جات گئے اس وقت باب عمر کی طرف پرانی کتابوں کی دکانیں بھی ہوا کرتی تھیں اب تو سارا نقشہ ہی بدل چکا ہے وہاں پر ہماری طرح سستی کتابیں بھی مل جاتی تھیں وہاں سے 5 ریال کی المعجم المفہرس للالفاظ القرآن الکریم بھی خریدی۔ انھوں نے ترجمہ کے نقطہ نظر سے کئی کتابیں لے کر دیں۔ ہم جس بھی مکتبہ میں جاتے تو دکاندار شیخ کا بڑا احترام کرتے۔ ہمارے ہاتھ میں عربی سیرت کی کتابوں کی کاپی ہوتی اور شیخ اس پر بھی نظر دوڑاتے اور اس کے ساتھ ساتھ نئی سیرت کی کتابوں کا جائزہ لے کر رائے دیتے۔

مکتبہ الرشد قابل ذکر مکتبہ تھا- اسی سال والد محترم بھی کچھ دنوں کے حج کے لیے آگئے تو پھر انھوں نے بھی عزیر صاحب کے ساتھ کتابوں کی خریداری کی-
والد صاحب کی وفات پر انھوں نے تفصیلی مضمون لکھا اور وہ کئی جگہ چھپا- ابو کی وفات کے دو سال بعد والدہ اور بڑے بھائی حج کے لیے گئے تو ان کو اپنے گھر لے کر گئے اور ان کی ضیافت کی- ان کی طرف سے گاہے بگاہے کتابوں کے حوالے سے فرمائش آتی جو کتابیں میسر آتی وہ بجھوا دی جاتی ان میں زیادہ تر شاہ ولی اللہ اور تحریکات اسلامی اور علمی نوعیت کی کتابیں ہوتی- ان کی وفات سے کچھ دن پہلے بھی ایک دوست سعودیہ سے آئے ہوئے تھے انھوں نے عزیر صاحب کی کتابوں کی لسٹ بھجوائی اس میں تبصرات ماجدی اور پرانے چراغ شامل تھی۔  پرانے چراغ ہی میسر آسکی۔ وہ میں نے بجھوا دی تھی۔ امید ہے وہ انھیں مل گئی ہوگی۔
2018 میں حج کے لیے گیا تو فون کیا تو عصر کے بعد عزیزیہ میں ملاقات کا طے پایا۔ وہی جذبہ اور محبت، بڑے تپاک سے ملے ہم کئی دکانوں پر گئے اور بہت ساری سیرت کی کتابیں خریدیں۔ سعودیہ میں بھی کتابوں کا کام زوال پذیر ہے ۔ کئی دکانیں ختم ہوچکی تھی۔ کتابیں بھی مہنگی ہوگئی تھیں۔ کتابوں پر بھی VAT ٹیکس لگ چکا تھا۔ ہم نے مغرب کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد وہ اپنے گھر لے گئے۔ فلیٹ میں ہر طرف کتابیں ہی کتابیں، کافی دیر ان سے گپ شپ کی۔ پاکستان آنے کی دعوت دی۔ کہنے لگے پاکستان کا ویزہ جب ہمارے پاسپورٹ پر لگے گا تو ہمارے لیے پریشانی ہو جاتی ہے۔ کہنے لگے میں دنیا کے کئی ممالک میں لیکچرز کے لیے جا چکا ہوں لیکن اس سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ میں نے کہا اگر آپ کو پاکستان میں کسی کانفرنس میں دعوت دی جائے تو اس پر وہ راضی ہوگئے کہ یہ صورت ممکن ہے۔ لیکن یہ بات بھی باتوں میں ہی رہ گئی اور وہ اللہ کے پاس حاضر ہوگئے۔ پاکستان آنے کی وہ شدید خواہش رکھتے تھے۔ میرے یا والد صاحب کے ریفرنس سے جو لوگ بھی حج یا عمرہ پر جاتے ان سے مکمل علمی تعاون فرماتے۔

اپنی مرتبہ کتب بھی تحفہ میں دیتے اور کئی ایسی کتابیں جو سیرت کے علاوہ ہوتی لیکن ان کی علمی حیثیت ہوتی وہ بھی خریدنے کا کہتے کہ یہ آپ کی لائبریری کے لیے ضروری ہیں۔ اس اخلاق، اخلاص اور محبت والے لوگ کم ہوتے بلکہ نایاب ہوتے جارہے ہیں۔ والد محترم فرمایا کرتے تھے کہ میں نے مولانا عطا اللہ حنیف سے سادہ انسان نہیں دیکھا لیکن ساتھ یہ بھی کہتے کہ کتاب رکھنے میں کمال نفیس آدمی تھے۔ میں تو مولانا کی زیارت سے محروم رہا لیکن میں نے عزیر شمس صاحب کی شخصیت میں مولانا کی طرح سادگی اور فنا فی العلم کا جذبہ بھرپور دیکھا۔ ان کی گفتگو کتاب سے شروع ہوتی اور کتاب پر ہی ختم ہوتی۔ بھلا ہو حافظ شاہد صاحب کا کہ انھوں نے ان کی زندگی میں ان کے مقالات کا مجموعہ شائع کیا اور اب دوسری جلد بھی آنے والی ہے۔ اس کے علاوہ امام ابن تیمیہ کے رسائل کا مجموعہ ان شااللہ ان کے لیے توشہ آخرت ہوگا۔ اللہ تعالٰی ان کی علمی خدمات کو دین حنیف کی سربلندی کے لیے معاون فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ ان کے علمی وارثین کو ان کے کاموں کی تکمیل کی توفیق عطا فرمائے- ہمیں بھی علم اور کتاب سے تعلق کے اسی جذبے سے سرفراز فرمائے آمین یارب العالمین۔

جمال الدین افغانی