سوال (4519)
کیا ویڈیو گیمز کھیل کر پیسے کمانا جائز ہے؟
اس کی دو صورتیں ہیں، ایک گیم کے اندر لیول جیتنے پر انعامات ہوں، دوسرا گیم کی لائو سٹریمنگ کی جائے اور یو ٹیوب سے پیسے کمائے جائیں، پہلی صورت میں بعض دفعہ ایسی صورت ہوتی ہے کہ بندہ اپنے ٹوکن لگاتا ہے، اس کا مخالف بھی اپنا ٹوکن لگاتا ہے
جو جیتتا ہے اس کو دونوں کے ٹوکن مل جاتے ہیں، ان ٹوکنوں کو پیسوں سے بدلا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ صورت یہ ہے کہ کوئی ٹوکن بھی نہ لگائیں بس لیول جیتیں اور انعام حاصل کریں۔
جواب
باقی بات بعد میں پہلے یہ بتانا ہے کہ ہر صورت میں لھو و لعب کا گناہ تو ہے۔
اب اس گناہ کو ایک طرف رکھتے ہیں آپ نے دو صورتیں بیان کی ہیں۔
پہلی صورت میں پھر دو صورتیں ہیں۔
ایک یہ کہ جس میں دونوں ٹوکن لگاتے ہیں جو جیتتا ہے وہ ٹوکن لے لیتا ہے یہ سیدھا جوا ہے حرام ہے جیسے کرکٹ کے میچ پہ دونوں ٹیمیں پیسے ملائیں پھر جو جیتے اسکو دے دئے جائیں تو وہ جوا ہی ہو گا۔
دوسرا یہ ہے کہ کوئی ٹوکن نہیں لگاتا بلکہ کوئی اور انعام دیتا ہے جیسے دو کرکٹ ٹیموں کو کھلایا جاتا ہے اور کسی ٹیم سے پیسے نہیں لئے جاتے بلکہ کوئی اور مہمان جیتنے والی ٹیم کو انعام دیتی ہے تو یہ جائز ہے جوا نہیں ہے اسی طرح پہلی صورت کا دوسرا کیس جو بتایا گیا ہے وہ شاید ایسے ہی ہے وہ جوا نہیں ہے(لیکن انعام وہ کیوں دیں گے اسکی سمجھ نہیں آئی کوئی ایڈورٹازنگ کرنا ہو گی۔ (واللہ اعلم)
دوسری صورت تو خالی سٹریمنگ کی کمائی ہے اس پہ پہلے بھی بہت بتایا جا چکا ہے کہ کمائی تب ہوتی ہے جب ایڈز کی اجازت ہو اور ایڈز انکی مرضی کی ہوتی ہے وہاں مسئلہ ہو سکتا ہے۔ واللہ اعلم
فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ
پہلی صورت: ٹوکن لگا کر کھیلنا (Stake-Based Gaming) یعنی ایک کھلاڑی اپنے ٹوکن (یعنی ایسی چیز جو مالی حیثیت رکھتی ہو) لگا رہا ہے، دوسرا بھی لگا رہا ہے، اور جو جیتے گا وہ دونوں کے ٹوکن حاصل کرے گا۔ بعد میں ان ٹوکنز کو حقیقی پیسے میں بدلا جا سکتا ہے۔
یہ صورت جُوا (قمار) کے تحت آتی ہے، جسے قرآن و سنت نے صریح طور پر حرام قرار دیا ہے:
“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأَنْصَابُ وَالأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ(المائدہ: 90)
“اے ایمان والو! شراب، جُوا، بت، پانسے – سب شیطانی کام ہیں، پس ان سے بچو تاکہ تم فلاح پا سکو۔”
چونکہ اس میں مال کا لین دین محض قسمت، چالاکی یا مہارت کی بنیاد پر ہو رہا ہے۔ ایک فریق کو نقصان ہو رہا ہے، دوسرا نفع حاصل کر رہا ہے، یہ اکل مال بالباطل (باطل طریقے سے مال کھانا) کے زمرے میں آتا ہے:
ولا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل” (البقرۃ: 188)
لہٰذا جس کھیل میں داخلہ، مقابلہ یا جیت ہار کے ساتھ پیسوں یا مالی قدر کی اشیاء (جیسے ٹوکنز) کا لین دین ہو، وہ حرام ہے۔
جہاں تک دوسری صورت یعنی بغیر کوئی ٹوکن لگائے، گیم کھیل کر انعام جیتنا یعنی صرف گیم کے لیول مکمل کرنے پر کچھ انعامات ملتے ہیں، جبکہ کھلاڑی نے کوئی پیسہ، ٹوکن یا شرط نہیں لگائی۔
تو یہ مشروط جائز کہا جا سکتا ہے اگر یہ کھیل خود حرام مناظر، موسیقی، یا فحش مواد سے پاک ہو۔ اس میں وقت کا ضیاع نہ ہو بلکہ محدود انداز میں کھیلا جائے۔ انعام کمپنی یا گیم بنانے والی طرف سے ہو، نہ کہ کسی دوسرے کھلاڑی کے پیسے۔ تو یہ صورت جائز ہے، کیونکہ یہ جُوا کے زمرے میں نہیں آتی۔
تیسری صورت: یوٹیوب یا دیگر پلیٹ فارمز پر گیم کی لائیو سٹریمنگ کرکے پیسے کمانا بظاہر اس میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر اس میں میں شرعی مناھی نہ ہوں (جیسے موسیقی، عورتوں کی بے پردگی، فحش زبان وغیرہ)۔ اور مقصد صرف تفریح نہ ہو بلکہ علمی، تجزیاتی یا پیشہ ورانہ انداز ہو۔ ویڈیو سے حاصل آمدنی یوٹیوب کے اشتہارات یا اسپانسرز کی طرف سے ہو، نہ کہ کسی گناہ یا حرام ذریعے سے۔
تو ایسی صورت میں یہ آمدنی جائز ہونے کا امکان ہو سکتا ہے۔ لیکن اس پر علماء کے مابین اختلاف ہے جس پر الگ سے تفصیل سے لکھ جا سکتا ہے۔ اور میری ذاتی رائے تو یہی ہے کہ اجتناب احوط ہے کیونکہ اطمئنان قلب نہیں ہے۔ واضح رہے یہ میری ذاتی رائے ہے کوئی فتویٰ نہیں۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ