سوال (5607)
حالیہ ایام میں ولادت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب کوئی شخص روزہ رکھنا چاہے تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیا یہ جائز ہے یا نہیں؟ اور وہ کس تاریخ یا کس دن کو رکھے گا؟
جواب
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر کے دن روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اسی دن میری بعثت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی۔
پیر کا دن مہینے میں چار بار اور سال میں تقریباً 48 بار آتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس بنیاد پر سوموار کو روزہ رکھتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دن روزہ رکھتے تھے، تو یہ بالکل درست ہے۔ مگر اس روزے کا تعلق کسی مخصوص تاریخ سے نہیں بلکہ صرف ‘دن’ یعنی پیر سے ہے۔
مزید ایک حدیث میں وضاحت آئی ہے کہ پیر اور جمعرات کے دن اعمال اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں دنوں کا روزہ رکھتے تھے۔
جہاں آپ نے اپنی ولادت کا تذکرہ فرمایا، وہ اس بات کے ضمن میں آیا، اصل وجہ روزے کی یہ تھی کہ ان دنوں میں اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔
لہٰذا اگر کوئی اس کو ظاہر پر لے اور ہر پیر کو روزہ رکھے تو بھی درست ہے، مگر تاریخ کی قید نہیں ہے۔ ہر پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنا سنت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، اور یہ باعثِ برکت ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ