سوال          (46)

شیخ صاحب یہ جو اختلاف ہے کہ جائداد کی تقسیم اگر مرنے سے پہلے ہو تو لڑکی اور لڑکے دونوں کو برابر ملے گی اور اگر مرنے کے بعد ہو تو لڑکی کو آدھا حصہ لڑکے سے ملتا ہے ، یہاں تک کہ بعض اہل حدیث علماء کا یہ موقف ہے جبکہ عرب علماء کا موقف اس کے برعکس ہے کہ چاہے مرنے سے پہلے ہو یا بعد لڑکی کو آدھا حصہ ہی ملے گا، ان دونوں میں سے کون سا موقف درست ہے؟

جواب

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

فَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَرَجَعَ فَرَدَّ عَطِيَّتَهُ.[صحیح البخاری: 2587]

’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کو قائم رکھو۔ چناچہ وہ واپس ہوئے اور ہدیہ واپس لے لیا‘‘۔

اس حدیث کی رو سے جنہوں نے عدل کا معنی مساوات لیا ہے تو وہ برابری کے قائل ہیں ۔ اور جنہوں نے عدل کا معنی یہ لیا ہے کہ جس کا جو حق بنتا ہے وہ اس کو دے دو ، تو وہ پھر لڑکے کو ڈبل اور لڑکی کو سنگل دینے کے قائل ہیں ۔

اللہ کی تقسیم ہے وہ مبنی برعدل ہے ، جو تقسیم بعد از وفات ہوگی ، اس میں مرد کو دو عورتوں کے حصے کے برابر ملے گا ، عرب کے علماء اس طرف چلے گئے ہیں ۔

باقی زندگی میں چونکہ وراثت اور ترکہ نہیں ہوتا ہے بلکہ ھدیہ ، ہبہ اور گفٹ ہوتا ہے ۔ تو اس میں تو کوئی بات طے کی جاسکتی ہے اگر دیگر لوگوں کو اعتراض نہ ہو مثلا لڑکے کو ایک روپیہ اور لڑکی کو آٹھ آنے اس پہ راضی ہیں تو ایسے ہی صحیح ہے ۔ اگر لڑکی مطالبہ کرے کہ مجھے روپیہ دے دو بھائی کہہ کہ مجھے آٹھ آنے دے دو پھر بھی ٹھیک ہے کیونکہ یہ گفٹ ہے ۔ اگر وہ نامانیں تو پھر مساوات کردیں ۔ اس میں  کسی بھی موقف کو اختیار کرنے میں سختی نہیں ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر  حفظہ اللہ