سوال

میں تہجد پڑھنا چاہتا ہوں، لیکن بسا اوقات آنکھ نہیں کھلتی، اس لئے وتر بھی عشاء کے ساتھ پڑھ لیتا ہوں۔ اگر میری آنکھ کھل جائے تو پھر میں وتر دوبارہ پڑھوں یا پھر تہجد کا طریقہ کیا ہوگا؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

سنت اور افضل طریقہ یہی ہے کہ وتر رات کے آخر میں پڑھا جائے، یعنی پہلے تہجد پڑھ لی جائے اور آخر میں وتر پڑھے جائیں۔ یہ اس شخص کے لیے ہے جس کو تہجد کے وقت بیدار ہونے پر اعتماد اور یقین ہو۔ اور جسے اندیشہ ہو کہ وہ بیدار نہیں ہو پائے گا، اس کے لیے بہتر ہے کہ عشاء کے بعد ہی وتر پڑھ لے تاکہ یہ فوت/ ضائع نہ ہوجائیں۔

جیسا کہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ الصُّبْحَ صَلَّى وَاحِدَةً فَأَوْتَرَتْ لَهُ مَا صَلَّى، وَإِنَّهُ كَانَ يَقُولُ: اجْعَلُوا آخِرَ صَلَاتِكُمْ وِتْرًا، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِهِ”. [صحیح البخاری: 472]

’’(رات کی نماز) دو دو رکعت کر کے پڑھ اور جب صبح قریب ہونے لگے تو ایک رکعت پڑھ لے۔ یہ ایک رکعت اس ساری نماز کو طاق بنا دے گی اور آپ (ابن عمر رضی اللہ عنہ) فرمایا کرتے تھے کہ رات کی آخری نماز کو طاق رکھا کرو کیونکہ نبی کریم ﷺ نے اس کا حکم دیا‘‘۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

“مَنْ خَافَ أَنْ لَا يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ أَوَّلَهُ وَمَنْ طَمِعَ أَنْ يَقُومَ آخِرَهُ فَلْيُوتِرْ آخِرَ اللَّيْلِ فَإِنَّ صَلَاةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَشْهُودَةٌ وَذَلِكَ أَفْضَلُ”. [صحیح مسلم: 1766]

’’جسے ڈر ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں نہیں اٹھ سکے گا، وہ رات کے شروع میں وتر پڑھ لے۔ اور جسے امید ہو کہ وہ رات کے آخر میں اٹھ جائے گا، وہ رات کے آخر میں وتر پڑھے کیونکہ رات کے آخری حصے کی نماز کے وقت حاضر ہوا جاتا ہے اور یہ افضل ہے‘‘۔

لہٰذا جس کو بیدار ہونے کی امید ہو تو اسکے لیے وتر رات کے آخر میں پڑھنا افضل ہے، لیکن جس کو اندیشہ ہو کہ وہ بیدار نہیں ہوپائے گا تو اسکو عشاء کے بعد ہی وتر پڑھ لینا چاہیے۔ اور اگر اللہ کے فضل سے بعد میں تہجد کے لیے بیدار ہو جائے تو صرف تہجد پڑھ لے، وتر کو دوبارہ نہ دہرائے۔

تہجد کے حوالے سے یہ بھی مسنون ہے کہ اگر کسی سبب رات کو رہ  جائے تو  انسان رات کو جتنی طاق رکعات ادا کرتا ہے، صبح چاشت کے وقت ان میں ایک رکعت کا اضافہ کرکے جفت تعداد میں  اتنے نوافل پڑھ لے تو اسے تہجد اور وتر کا ثواب مل جائے گا۔ سيده عائشہ رضی اللہ عنہا  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تہجد کی نماز کی کیفیت بیان کرتے ہوئے  فرماتی ہیں :

وَكَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهَا. وَكَانَ إِذَا غَلَبَهُ ‌نَوْمٌ ‌أَوْ ‌وَجَعٌ عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ صَلَّى مِنَ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً”. [صحيح مسلم:746]

’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ جو نماز پڑھتے تو پھر اس پر ہمیشگی اختیار کرنا پسند فرماتے، لیکن  اگر نیند کے غلبے یا بیماری کے سبب آپ سے  تہجد کی نماز رہ جاتی تو آپ اس کے عوض صبح چاشت کے وقت بارہ رکعات نوافل ادا کرتے‘۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ