سوال (3840)
میں نے ایک بھینس خریدنے کے لیے بیوپاری کو رقم ادا کی ہے اس نے کہا کہ جب تک مناسب بھینس نہیں ملتی، آپ ایک وقت کا چار کلو دودھ مجھ سے لیتے رہیں، جوہی بھینس ملے گی میں آپ کو اسی ادا کردہ رقم پر بھینس خرید کر دوں گا، کیا یہ درست ہے اور دودھ ہمارے لیے سود تو نہیں بنتا وضاحت فرمائیں۔
جواب
وہ دودھ کس کے عوض میں ہے؟
فضیلۃ الباحث کامران الٰہی ظہیر حفظہ اللہ
سائل: اس نے کہا تھا کہ جب تک بھینس نہیں ملتی دودھ لیتے رہیں جب مل گئی آپ کو بھینس دے دوں گا۔ دودھ کے پیسے نہیں لوں گا، پیسےصرف بھینس کے لیے دیے تھے؟
جواب: یہ درست نہیں ہے
فضیلۃ الباحث کامران الٰہی ظہیر حفظہ اللہ
سائل: مطلب دودھ مت لیں؟
جواب: وہ بیوپاری اس رقم کا بادیہ النظر میں استعمال کرے گا، یعنی اس عرصہ میں دو چار جانور لے کر منافع کمائے گا اور اسے اس بہانے میں رکھے گا کہ ابھی مناسب جانور نہیں مل رہا اسے دودھ دیتا رہے گا، اس لیے اس شخص کا مناسب جانور نہ ملنے تک دودھ دینے کا عمل درست نہیں ہے۔
فضیلۃ الباحث کامران الٰہی ظہیر حفظہ اللہ
آپ کے معاملے میں دو معاملات ہیں:
آپ نے بیوپاری کو بھینس کی قیمت ادا کر دی ہے، اور اس نے وعدہ کیا ہے کہ مناسب بھینس دستیاب ہوتے ہی آپ کو دے گا۔ اگر یہ سودا واضح شرائط کے ساتھ ہوا ہے اور بھینس کی خصوصیات طے کر لی گئی ہیں، تو یہ جائز بیع سمجھی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر بھینس کی صفات اور مدت کا تعین نہیں کیا گیا تو اس میں غرر (غیر یقینی معاملہ) ہونے کا خدشہ ہے، جو شرعی طور پر ناپسندیدہ ہے۔
جب تک بھینس نہ ملے، اس دوران بیوپاری کی طرف سے روزانہ چار کلو دودھ دینا ایک الگ معاملہ ہے۔ اگر یہ دودھ آپ کو ادا کردہ رقم کے بدلے میں اضافی فائدے کے طور پر دیا جا رہا ہے، تو یہ سود (ربا) کے زمرے میں آ سکتا ہے، کیونکہ یہ قرض پر مشروط نفع ہے، جو شرعاً ناجائز ہے۔
اگر بیوپاری یہ دودھ محض احسان اور تبرع کے طور پر دے رہا ہے، بغیر کسی شرط یا معاہدے کے، تو یہ جائز ہو سکتا ہے۔
اگر دودھ کو ادا کردہ رقم کا عوض سمجھا جا رہا ہے یا اس کا سودا طے شدہ بھینس کے سودے کے ساتھ مشروط ہے، تو یہ سود کے زمرے میں آ سکتا ہے اور جائز نہیں ہوگا۔
بہتر طریقہ یہ ہے کہ یا تو دودھ کا الگ سے سودا کر لیا جائے یا پھر صرف بھینس کے معاہدے پر اکتفا کیا جائے اور بیوپاری سے دودھ نہ لیا جائے، تاکہ کسی بھی شبہ سے بچا جا سکے۔
واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ