سوال (5870)

وَلَيۡسَتِ التَّوۡبَةُ لِلَّذِيۡنَ يَعۡمَلُوۡنَ السَّيِّاٰتِ‌ ۚ حَتّٰۤى اِذَا حَضَرَ اَحَدَهُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ اِنِّىۡ تُبۡتُ الۡــئٰنَ وَلَا الَّذِيۡنَ يَمُوۡتُوۡنَ وَهُمۡ كُفَّارٌ ‌ؕ اُولٰٓئِكَ اَعۡتَدۡنَا لَهُمۡ عَذَابًا اَ لِيۡمًا،

جو کفر ہی پر مر جاتے ہیں ان کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی، جب کافر توبہ کرتے ہی نہیں تو ان کی توبہ کا ذکر کیوں کیا گیا ہے؟

جواب

اس سے مراد ہے موت ظاہر ہو چکنے پر توبہ کرنا یا ایمان لانے کا اقرار کرنا جیسے فرعون کا اقرار کچھ کام نہیں آیا۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

دو طرح کے افراد کی بات ہوئی، جو گناہ گار ہیں اور موت کے آثار ظاہر ہونے کے بعد توبہ کریں، دوسرے جو کافر ہیں۔

فضیلۃ العالم عمران صارم حفظہ اللہ

صرف اسی توبہ اور ایمان لانے کا اعتبار ہے جو موت نظر آنے سے پہلے کی جائے اور لایا جائے۔
مثلا ایک شخص کی زندگی گزر گئ گناہ کرتے ہوئے مگر کبھی صدق دل سے توبہ نہیں کی مگر جونہی موت کا فرشتہ دیکھا یا موت نظر آئی تو کہنے لگا اب میں توبہ کرتا ہوں تو یہ توبہ کوئی توبہ نہیں ہے۔
یہی مثال فرعون کے ایمان لانے کی ہے کہ اس نے بھی موت دیکھ کر موسی و ھارون کے رب پر ایمان لانے کا اقرار کیا جو مردود ٹہرا۔
اس لئے اس توبہ اور ایمان کا اعتبار ہے جو موت نظر آنے سے پہلے زندگی میں کی جائے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

آیت کے الفاظ سے جو مفہوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ دو طرح کے لوگوں کی توبہ قبول نہیں:
1۔ جو برائیاں کرتے رہیں اور موت کے آثار ظاہر ہونے پر توبہ کریں۔
2۔ جو کفر کی حالت پر مریں۔
سوال تھا کہ کافر نے توبہ کی ہی نہیں۔

فضیلۃ العالم عمران صارم حفظہ اللہ

اس آیت کی تفسیر ومراد ائمہ مفسرین سے پیش کرتے ہیں۔
پہلے ہم آیت اور اس کا ترجمہ شیخ الحدیث والتفسیر حافظ بھٹوی رحمة الله عليه سے پیش کرتے ہیں۔

وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّىٰ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ ۚ أُولَٰئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا، النساء:(18)

اور توبہ ان لوگوں کی نہیں جو برے کام کیے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجاتی ہے تو وہ کہتا ہے بے شک میں نے اب توبہ کرلی اور نہ ان کی ہے جو اس حال میں مرتے ہیں کہ وہ کافر ہوتے ہیں، یہ لوگ ہیں جن کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کیا ہے۔
مراد یہ ہے کہ صرف اسی توبہ اور ایمان لانے کا اعتبار ہے جو موت نظر آنے سے پہلے کی جائے اور ایمان لایا جائے۔ مثلا ایک شخص کی زندگی گزر گئ گناہ کرتے ہوئے مگر کبھی صدق دل سے توبہ نہیں کی مگر جونہی موت کا فرشتہ دیکھا یا موت نظر آئی تو کہنے لگا اب میں توبہ کرتا ہوں تو یہ توبہ کوئی توبہ نہیں ہے ایسے ہی کافر اگر موت نظر آنے پر کرے تو تب کوئی توبہ نہیں ہے اور یہ کفر پر فوت ہونے والے لوگ ہیں یہ آخرت میں مغفرت معافی سے محروم ہیں۔
یہی مثال فرعون کے ایمان لانے کی ہے کہ اس نے بھی موت دیکھ کر موسی وھارون کے رب پر ایمان لانے کا اقرار کیا جو مردود ٹہرا۔
اس لئے اس توبہ اور ایمان کا اعتبار ہے جو موت نظر آنے سے پہلے زندگی میں کی جائے۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی رحمة الله عليه فرماتے ہیں:
وَ لَيْسَتِ التَّوْبَةُ: یعنی ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ کو اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک کہ موت کے وقت اس کی روح حلق تک نہ پہنچ جائے۔‘‘ [ ترمذی، الدعوات، باب إن اللّٰہ یقبل….: ۳۵۳۷، عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما وقال الألبانی حسن ] آخری وقت میں تو فرعون نے بھی توبہ کر لی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿آٰلْٰٔنَ وَ قَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَ كُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِيْن﴾ [ یونس: ۹۱ ]

’’کیا اب؟ حالانکہ بے شک تو نے اس سے پہلے نافرمانی کی اور تو فساد کرنے والوں سے تھا۔‘‘
2۔ وَ لَا الَّذِيْنَ يَمُوْتُوْنَ وَ هُمْ كُفَّارٌ: یعنی جو لوگ مرتے دم تک کفر و شرک میں مبتلا رہتے ہیں اور موت کے آثار دیکھ کر توبہ کرنا چاہتے ہیں، ان کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَحْدَهٗ وَ كَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهٖ مُشْرِكِيْنَ، فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ اِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا سُنَّتَ اللّٰهِ الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ فِيْ عِبَادِهٖ وَ خَسِرَ هُنَالِكَ الْكٰفِرُوْنَ﴾ [ المؤمن: ۸۴، ۸۵ ]

’’پھر جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھا تو انھوں نے کہا ہم اس اکیلے اللہ پر ایمان لائے اور ہم نے ان کا انکار کیا جنھیں ہم اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے تھے۔ پھر یہ نہ تھا کہ ان کا ایمان انھیں فائدہ دیتا، جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا۔ یہ اللہ کا طریقہ ہے جو اس کے بندوں میں گزر چکا اور اس موقع پر کافر خسارے میں رہے۔‘‘ نیز دیکھیے سورۂ انعام (۱۵۸)
امام محمد بن جریر الطبری نے الله تعالی کے ارشاد، ﻭﻻ اﻟﺬﻳﻦ ﻳﻤﻮﺗﻮﻥ ﻭﻫﻢ ﻛﻔﺎﺭ ﺃﻭﻟﺌﻚ ﺃﻋﺘﺪﻧﺎ ﻟﻬﻢ ﻋﺬاﺑﺎ ﺃﻟﻴﻤﺎ، تفسیر القرآن الکریم ،تفسیر سورۃ النساء:(18)
کی تفسیر میں کہا:

ﻳﻌﻨﻲ ﺑﺬﻟﻚ ﺟﻞ ﺛﻨﺎﺅﻩ: ﻭﻻ اﻟﺘﻮﺑﺔ ﻟﻠﺬﻳﻦ ﻳﻤﻮﺗﻮﻥ ﻭﻫﻢ ﻛﻔﺎﺭ ﻓﻤﻮﺿﻊ”اﻟﺬﻳﻦ” ﺧﻔﺾ، ﻷﻧﻪ ﻣﻌﻄﻮﻑ ﻋﻠﻰ ﻗﻮﻟﻪ:”ﻟﻠﺬﻳﻦ ﻳﻌﻤﻠﻮﻥ اﻟﺴﻴﺌﺎﺕ”.
ﻭﻗﻮﻟﻪ:”ﺃﻭﻟﺌﻚ ﺃﻋﺘﺪﻧﺎ ﻟﻬﻢ ﻋﺬاﺑﺎ ﺃﻟﻴﻤﺎ”، ﻳﻘﻮﻝ: ﻫﺆﻻء اﻟﺬﻳﻦ ﻳﻤﻮﺗﻮﻥ ﻭﻫﻢ ﻛﻔﺎﺭ ﺃﻋﺘﺪﻧﺎ ﻟﻬﻢ ﻋﺬاﺑﺎ ﺃﻟﻴﻤﺎ”، ﻷﻧﻬﻢ ﻣﻦ اﻟﺘﻮﺑﺔ ﺃﺑﻌﺪ، ﻟﻤﻮﺗﻬﻢ ﻋﻠﻰ اﻟﻜﻔﺮ، تفسیر الطبری:8/ 102
ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ:ﻭﻻ اﻟﺬﻳﻦ ﻳﻤﻮﺗﻮﻥ ﻭﻫﻢ ﻛﻔﺎﺭ، ﺃﻭﻟﺌﻚ ﺃﺑﻌﺪ ﻣﻦ اﻟﺘﻮﺑﺔ، تفسیر الطبری:(8868)

ابن زید نے کہا:

ﻭﻻ اﻟﺬﻳﻦ ﻳﻤﻮﺗﻮﻥ ﻭﻫﻢ ﻛﻔﺎﺭ) ﻗﺎﻝ: ﻟﻴﺲ ﻟﻬﻢ ﺗﻮﺑﺔ، ﻭﻗﺎﻝ: ﻋﺮﺽ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻬﻢ ﺃﻥ ﻳﺘﻮﺑﻮا ﻣﺮﺓ ﻭاﺣﺪﺓ، ﻓﻴﻘﺒﻠﻬﺎ اﻟﻠﻪ ﻣﻨﻬﻢ، ﻓﺄﺑﻮا، ﺃﻭ ﻳﻌﺮﺿﻮﻥ اﻟﺘﻮﺑﺔ ﺑﻌﺪ اﻟﻤﻮﺕ، ﻗﺎﻝ: ﻓﻬﻢ ﻳﻌﺮﺿﻮﻧﻬﺎ ﻓﻲ اﻵﺧﺮﺓ ﺧﻤﺲ ﻋﺮﺿﺎﺕ، ﻓﻴﺄﺑﻰ اﻟﻠﻪ ﺃﻥ ﻳﻘﺒﻠﻬﺎ ﻣﻨﻬﻢ، ﻗﺎﻝ: ﻭاﻟﺘﺎﺋﺐ ﻋﻨﺪ اﻟﻤﻮﺕ ﻟﻴﺴﺖ ﻟﻪ ﺗﻮﺑﺔ (ﻭﻟﻮ ﺗﺮﻯ ﺇﺫ ﻭﻗﻔﻮا ﻋﻠﻰ اﻟﻨﺎﺭ ﻓﻘﺎﻟﻮا ﻳﺎ ﻟﻴﺘﻨﺎ ﻧﺮﺩ ﻭﻻ ﻧﻜﺬﺏ ﺑﺂﻳﺎﺕ ﺭﺑﻨﺎ…) اﻵﻳﺔ، ﻭﻗﺮﺃ (ﺭﺑﻨﺎ ﺃﺑﺼﺮﻧﺎ ﻭﺳﻤﻌﻨﺎ ﻓﺎﺭﺟﻌﻨﺎ ﻧﻌﻤﻞ ﺻﺎﻟﺤﺎ ﺇﻧﺎ ﻣﻮﻗﻨﻮﻥ) تفسیر الطبری:20/ 428

اسی آیت کی تفسیر امام ابو اسحاق الزجاج نے کہا:

ﺣﺘﻰ ﺇﺫا ﺣﻀﺮ ﺃﺣﺪﻫﻢ اﻟﻤﻮﺕ ﻗﺎﻝ ﺇﻧﻲ ﺗﺒﺖ اﻵﻥ) ﺇﻧﻤﺎ ﻟﻢ ﺗﻜﻦ ﻟﻪ،
اﻟﺘﻮﺑﺔ، ﻷﻧﻪ ﺗﺎﺏ ﻓﻲ ﻭﻗﺖ ﻻ ﻳﻤﻜﻦ اﻹﻗﻼﻉ ﺑﺎﻟﺘﺼﺮﻑ ﻓﻴﻤﺎ ﻳﺤﻘﻖ اﻟﺘﻮﺑﺔ،
ﻣﻌﺎﻧﻲ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﻭﺇﻋﺮاﺑﻪ للزجاج:2/ 29

اور قوم یونس کے ذکر میں کہا:

ﻭﺟﺮﻯ ﻫﺬا ﺑﻌﻘﺐ
ﻗﻮﻝ ﻓﺮﻋﻮﻥ ﻟﻤﺎ ﺃﺩﺭﻛﻪ اﻟﻐﺮﻕ: (ﺁﻣﻨﺖ ﺃﻧﻪ ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ اﻟﺬﻱ ﺁﻣﻨﺖ ﺑﻪ ﺑﻨﻮ ﺇﺳﺮاﺋﻴﻞ).
ﻓﺄﻋﻠﻢ اﻟﻠﻪ ﺟﻞ ﻭﻋﺰ ﺃﻥ اﻹﻳﻤﺎﻥ ﻻ ﻳﻨﻔﻊ ﻋﻨﺪ ﻭﻗﻮﻉ اﻟﻌﺬاﺏ ﻭﻻ ﻋﻨﺪ ﺣﻀﻮﺭ اﻟﻤﻮﺕ اﻟﺬﻱ ﻻ ﻳﺸﻚ ﻓﻴﻪ.
ﻗﺎﻝ اﻟﻠﻪ ﺟﻞ ﻭﻋﺰ: (ﻭﻟﻴﺴﺖ اﻟﺘﻮﺑﺔ ﻟﻠﺬﻳﻦ ﻳﻌﻤﻠﻮﻥ اﻟﺴﻴﺌﺎﺕ ﺣﺘﻰ ﺇﺫا ﺣﻀﺮ ﺃﺣﺪﻫﻢ اﻟﻤﻮﺕ ﻗﺎﻝ ﺇﻧﻲ ﺗﺒﺖ اﻵﻥ ﻭﻻ اﻟﺬﻳﻦ ﻳﻤﻮﺗﻮﻥ ﻭﻫﻢ ﻛﻔﺎﺭ) ﻣﻌﺎﻧﻲ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﻭﺇﻋﺮاﺑﻪ للزجاج:3/ 34

امام السمعانی نے کہا:

ﻳﻌﻨﻲ: ﺣﺎﻟﺔ اﻟﻤﻮﺕ، ﻳﺘﻮﺏ ﺣﻴﻦ ﻳﺴﺎﻕ، ﻭﻭﺟﻪ ﺫﻟﻚ: ﻣﺜﻞ ﺗﻮﺑﺔ ﻓﺮﻋﻮﻥ ﺣﻴﻦ ﺃﺩﺭﻛﻪ اﻟﻐﺮﻕ، ﻗﺎﻝ: ﺁﻣﻨﺖ ﺃﻧﻪ ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ اﻟﺬﻱ ﺁﻣﻨﺖ ﺑﻪ ﺑﻨﻮ ﺇﺳﺮاﺋﻴﻞ، ﻳﻘﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻟﻴﺲ ﻟﻬﺆﻻء ﺗﻮﺑﺔ.
ﻭﻻ اﻟﺬﻳﻦ ﻳﻤﻮﺗﻮﻥ ﻭﻫﻢ ﻛﻔﺎﺭ
ﻳﻌﻨﻲ: ﻭﻻ اﻟﺬﻳﻦ ﻳﻤﻮﺗﻮﻥ ﻛﻔﺎﺭا ﻟﻬﻢ ﺗﻮﺑﺔ {ﺃﻭﻟﺌﻚ اﻋﺘﺪﻧﺎ ﻟﻬﻢ}
ﺃﻱ: ﺃﻋﺪﺩﻧﺎ ﻟﻬﻢ ﻋﺬاﺑﺎ ﺃﻟﻴﻤﺎ، تفسیر السمعانی:1/ 409

امام بغوی نے کہا:

ﻭﻟﻴﺴﺖ اﻟﺘﻮﺑﺔ ﻟﻠﺬﻳﻦ ﻳﻌﻤﻠﻮﻥ اﻟﺴﻴﺌﺎﺕ، ﻳﻌﻨﻲ اﻟﻤﻌﺎﺻﻲ ﺣﺘﻰ ﺇﺫا ﺣﻀﺮ ﺃﺣﺪﻫﻢ اﻟﻤﻮﺕ، ﻭﻭﻗﻊ ﻓﻲ اﻟﻨﺰﻉ، ﻗﺎﻝ ﺇﻧﻲ ﺗﺒﺖ اﻵﻥ، ﻭﻫﻲ ﺣﺎﻝ اﻟﺴﻮﻕ ﺣﻴﻦ ﻳﺴﺎﻕ ﺑﺮﻭﺣﻪ، ﻻ ﻳﻘﺒﻞ ﻣﻦ ﻛﺎﻓﺮ ﺇﻳﻤﺎﻥ ﻭﻻ ﻣﻦ ﻋﺎﺹ ﺗﻮﺑﺔ، ﻗﺎﻝ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ: ﻓﻠﻢ ﻳﻚ ﻳﻨﻔﻌﻬﻢ ﺇﻳﻤﺎﻧﻬﻢ ﻟﻤﺎ ﺭﺃﻭا ﺑﺄﺳﻨﺎ، [ ﻏﺎﻓﺮ: 85]
ﻭﻟﺬﻟﻚ ﻟﻢ ﻳﻨﻔﻊ ﺇﻳﻤﺎﻥ ﻓﺮﻋﻮﻥ ﺣﻴﻦ ﺃﺩﺭﻛﻪ اﻟﻐﺮﻕ. ﻭﻻ اﻟﺬﻳﻦ ﻳﻤﻮﺗﻮﻥ ﻭﻫﻢ ﻛﻔﺎﺭ ﺃﻭﻟﺌﻚ ﺃﻋﺘﺪﻧﺎ، ﺃﻱ: ﻫﻴﺄﻧﺎ ﻭﺃﻋﺪﺩﻧﺎ، ﻟﻬﻢ ﻋﺬاﺑﺎ ﺃﻟﻴﻤﺎ۔ تفسیر البغوی:1/ 587

امام قرطبی نے اس آیت کی تفسیر کافی تفصیل بیان کی ہے توبہ کی اقسام کے بارے میں پھر آگے کہتے ہیں:

ﻭﺃﻣﺎ الكفار ﻳﻤﻮﺗﻮﻥ ﻋﻠﻰ ﻛﻔﺮﻫﻢ ﻓﻼ ﺗﻮﺑﺔ ﻟﻬﻢ ﻓﻲ اﻵﺧﺮﺓ، ﻭﺇﻟﻴﻬﻢ اﻹﺷﺎﺭﺓ ﺑﻘﻮﻟﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ: (ﺃﻭﻟﺌﻚ ﺃﻋﺘﺪﻧﺎ ﻟﻬﻢ ﻋﺬاﺑﺎ ﺃﻟﻴﻤﺎ) ﻭﻫﻮ اﻟﺨﻠﻮﺩ. ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻧﺖ اﻹﺷﺎﺭﺓ ﺑﻘﻮﻟﻪ ﺇﻟﻰ اﻟﺠﻤﻴﻊ ﻓﻬﻮ ﻓﻲ ﺟﻬﺔ اﻟﻌﺼﺎﺓ ﻋﺬاﺏ ﻻ ﺧﻠﻮﺩ ﻣﻌﻪ، ﻭﻫﺬا ﻋﻠﻰ ﺃﻥ اﻟﺴﻴﺌﺎﺕ ﻣﺎ ﺩﻭﻥ اﻟﻜﻔﺮ، ﺃﻱ ﻟﻴﺴﺖ اﻟﺘﻮﺑﺔ ﻟﻤﻦ ﻋﻤﻞ ﺩﻭﻥ اﻟﻜﻔﺮ ﻣﻦ اﻟﺴﻴﺌﺎﺕ ﺛﻢ ﺗﺎﺏ ﻋﻨﺪ اﻟﻤﻮﺕ، ﻭﻻ ﻟﻤﻦ ﻣﺎﺕ ﻛﺎﻓﺮا ﻓﺘﺎﺏ ﻳﻮﻡ اﻟﻘﻴﺎﻣﺔ. ﻭﻗﺪ ﻗﻴﻞ: ﺇﻥ اﻟﺴﻴﺌﺎﺕ ﻫﻨﺎ اﻟﻜﻔﺮ، ﻓﻴﻜﻮﻥ اﻟﻤﻌﻨﻰ ﻭﻟﻴﺴﺖ اﻟﺘﻮﺑﺔ ﻟﻞﻛﻔﺎﺭ اﻟﺬﻳﻦ ﻳﺘﻮﺑﻮﻥ ﻋﻨﺪ اﻟﻤﻮﺕ، ﻭﻻ ﻟﻠﺬﻳﻦ ﻳﻤﻮﺗﻮﻥ ﻭﻫﻢ ﻛﻔﺎﺭ. ﻭﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ اﻟﻌﺎﻟﻴﺔ: ﻧﺰﻝ ﺃﻭﻝ اﻵﻳﺔ ﻓﻲ اﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ (ﺇﻧﻤﺎ اﻟﺘﻮﺑﺔ ﻋﻠﻰ اﻟﻠﻪ). ﻭاﻟﺜﺎﻧﻴﺔ ﻓﻲ اﻟﻤﻨﺎﻓﻘﻴﻦ. (ﻭﻟﻴﺴﺖ اﻟﺘﻮﺑﺔ ﻟﻠﺬﻳﻦ ﻳﻌﻤﻠﻮﻥ اﻟﺴﻴﺌﺎﺕ) ﻳﻌﻨﻲ ﻗﺒﻮﻝ اﻟﺘﻮﺑﺔ ﻟﻠﺬﻳﻦ ﺃﺻﺮﻭا ﻋﻠﻰ ﻓﻌﻠﻬﻢ. (ﺣﺘﻰ ﺇﺫا ﺣﻀﺮ ﺃﺣﺪﻫﻢ اﻟﻤﻮﺕ) ﻳﻌﻨﻲ اﻟﺸﺮﻕ ﻭاﻟﻨﺰﻉ ﻭﻣﻌﺎﻳﻨﺔ ﻣﻠﻚ اﻟﻤﻮﺕ. ﻗﺎﻝ ﺇﻧﻲ ﺗﺒﺖ اﻵﻥ) ﻓﻠﻴﺲ ﻟﻬﺬا ﺗﻮﺑﺔ. ﺛﻢ ﺫﻛﺮ ﺗﻮﺑﺔ اﻟﻜﻔﺎﺭ ﻓﻘﺎﻝ ﺗﻌﺎﻟﻰ: (ﻭﻻ اﻟﺬﻳﻦ ﻳﻤﻮﺗﻮﻥ ﻭﻫﻢ ﻛﻔﺎﺭ ﺃﻭﻟﺌﻚ ﺃﻋﺘﺪﻧﺎ ﻟﻬﻢ ﻋﺬاﺑﺎ ﺃﻟﻴﻤﺎ) ﺃﻱ ﻭﺟﻴﻌﺎ ﺩاﺋﻤﺎ، تفسیر القرطبی:5/ 93

حافظ ابن کثیر کہتے ہیں:

ﻭﻗﻮﻟﻪ: {ﻭﻻ اﻟﺬﻳﻦ ﻳﻤﻮﺗﻮﻥ ﻭﻫﻢ ﻛﻔﺎﺭ}
[ اﻵﻳﺔ] ﻳﻌﻨﻲ: ﺃﻥ اﻟﻜﺎﻓﺮ ﺇﺫا ﻣﺎﺕ ﻋﻠﻰ ﻛﻔﺮﻩ ﻭﺷﺮﻛﻪ ﻻ ﻳﻨﻔﻌﻪ ﻧﺪﻣﻪ ﻭﻻ ﺗﻮﺑﺘﻪ، ﻭﻻ ﻳﻘﺒﻞ ﻣﻨﻪ ﻓﺪﻳﺔ ﻭﻟﻮ ﺑﻤﻞء اﻷﺭﺽ، [ ﺫﻫﺒﺎ] تفسیر ابن کثیر:2/ 238
والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ