والد جنت کا بہترین دروازہ

⇚ سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

«الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، فَإِنْ شِئْتَ فَأَضِعْ ذَلِكَ الْبَابَ أَوِ احْفَظْهُ».

’’والد جنت کا بہترین دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو دروازے کی حفاظت کر لو، اور چاہو تو ضائع کر لو۔‘‘
(سنن الترمذی : ١٩٠٠، سنن ابن ماجه : ٢٠٨٩ وسنده حسن)

اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے والد کو ’’أوسط أبواب الجنة‘‘ قرار دیا ہے، یہاں ’’اوسط‘‘ کا معنی ’’سب سے بہترین اور عمدہ‘‘ ہے، کیوں کہ ’’اوسط‘‘ افراط و تفریط سے ہٹ کر درمیانہ ہونے کی وجہ سے دوسروں سے بہتر و افضل ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : ﴿قال أوسطهم ألم أقل لكم لولا تسبحون﴾۔ (الميسر فى مصابيح السنة للتوربشتي : ٣/ ١٠٦٩)

اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ حصولِ جنت کے سب سے بہترین وسائل و اسباب اور اس میں لے جانے والے اعمال میں سے والد کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا اور ان کی مخالفت و نافرمانی سے بچنا بھی ہے۔
(تحفة الأبرار شرح مصابيح السنة : ٣/ ٢٥٢)

اس حدیث میں والدہ بھی شامل ہیں کیونکہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی زیادہ تاکید ہے تو وہ بالاولی اس میں شامل ہوں گی ۔
(التنوير شرح الجامع الصغير للصنعاني : ١١/ ٥٤، تحفة الأحوذي للمباركفوري : ٦/ ٢١)

⇚ سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

«رَضِيَ الربِّ فِي رضى الْوَالِدِ وَسُخْطُ الرَّبِّ فِي سُخْطِ الْوَالِدِ».

’’والد کی رضامندی میں اللہ کی رضا ہے اور والد کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے۔‘‘
(سنن الترمذی : ١٨٩٩ وسنده حسن)

یعنی جب والد انسان سے راضی ہوں تو اللہ تعالی اس پر راضی ہوتے ہیں اور جب والد ناراض ہوں تو یہ اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب بن جاتا ہے، نیز اس حدیث میں صرف والد کا ذکر ہے اور والدہ بھی اس میں شامل ہیں، اسی طرح والدین میں اوپر تک تمام آباء و امہات یعنی دادا دادی وغیرہ بھی داخل ہیں البتہ قریبی آباء کا حق دور والوں سے زیادہ ہے۔ (المفاتيح شرح المصابيح للزيداني : ٥/ ٢٠٩)

والدین کی نافرمانی اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب ہے تو اس معلوم ہوا کہ والدین کی نافرمانی کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
(السراج المنير شرح الجامع الصغير للعزيزي : ٣/ ١٨٨)

⇚ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

«ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ لَا شَكَّ فِيهِنَّ دَعْوَةُ الْوَالِدِ وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ».

’’تین دعائیں ایسی ہیں جن کی قبولیت میں کوئی شک نہیں،والد کی دعا،مسافر کی دعا اور مظلوم کی دعا۔‘‘
(سنن أبى داود : ١٥٣٦، سنن الترمذي : ١٩٠٥ وسنده حسن)

ایک روایت میں ہے :

«وَدَعْوَةُ الْوَالِدِ لِوَلَدِهِ».

’’والد کی بیٹے (یعنی اولاد) کے حق میں کی گئی دعا۔‘‘ (سنن ابن ماجه : ٣٨٦٢)

دوسری روایت کے الفاظ ہیں :

«دَعْوَةُ الْوَالِدِ عَلَى وَلَدِهِ».

’’والد کی اولاد پر بد دعا۔‘‘ (سنن الترمذى : ١٩٠٥)

حدیث میں صرف والد کا ذکر ہے لیکن والدہ بالاولی اس میں شامل ہیں، چونکہ والدین کا اولاد پر حق زیادہ ہوتا ہے اس لیے دعا کی قبولیت کے معاملے میں بھی ان کا حق زیادہ ہے۔
(مرشد ذوى الحجا والحاجة للهررى : ٢٣/ ٧٧)

والدین وہ ہستی ہیں جن کی دعا میں سب سے زیادہ اخلاص و انکساری اور سچائی ہوتی ہے، جب وہ اولاد کے حق میں دعا کریں تب بھی اس میں شفقت، محبت و دل کی نرمی و ہمدردی کمال درجہ میں شامل ہوتی ہے اور اگر وہ کبھی اولاد سے بہت زیادہ تنگ آ کر، لاچاری و بے بسی کی صورت میں تبھی بد دعا کرتے ہیں جب وہ اس کا مستحق ہوتا ہے، اس لیے وہ بھی قبول ہوتی ہے۔
(شرح المصابيح لابن مالك : ٣/ ٨١، شرح رياض الصالحين لابن العثيمين : ٤/ ٦١٧)

حافظ محمد طاھر حفظہ اللہ

یہ بھی پڑھیں: مولانا عبد العزیز علوی رحمہ اللہ کی تدفین