سوال
ایک شخص نے کسی کو مکان فروخت کیا، لیکن ساتھ یہ شرط لگائی کہ میں جب تک زندہ ہوں، مکان میرے پاس ہی رہے گا، میری وفات کے بعد خریدار کو اس کا قبضہ ملے گا۔
کیا ایسی شرط لگانا درست ہے؟ اگر نہیں تو اس بیع کا کیا حکم ہو گا؟ کیونکہ بعض لوگوں نے ایسا معاملہ کیا ہے۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
بیع میں ایسی شرط لگانا کہ “قبضہ خریدار کو وفات کے بعد ملے گا”، یہ فاسد شرط ہے، کیونکہ یہ شرط غرر اور مجہول مدت پر مبنی ہے۔
اس شرط کی وجہ سے یہ بیع شرعا باطل ہے، کیونکہ اس میں قبضہ غیر معین اور مجہول مدت (یعنی وفات) سے مشروط ہے، جو کہ شرعاً جائز اور درست نہیں ہے۔ اس قسم کی خرید و فروخت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الغرر”. [صحيح مسلم:1153]
’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکے والی خرید و فروخت سے منع فرمایا ہے‘۔
اب اس کا شرعی حل یہ ہے کہ:
- اس فاسد بیع کو فوراً فسخ کر دیا جائے، اور بائع (بیچنے والا) خریدار کو مکمل رقم واپس کر دے۔
- یا اگر دونوں فریق معاملے کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، تو فاسد شرط کو ختم کر کے، معلوم اور معین مدت کے لیے معاہدہ کر لیں، جیسے ایک مہینہ، دو مہینے یا ایک سال وغیرہ۔ ایسی متعین مدت ہو تو بیع درست ہوگی، بشرطیکہ خریدار کو اس کے بعد مکمل قبضہ دے دیا جائے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ