سوال

سوال یہ ہے کہ میاں بیوی میں جھگڑا ہوا۔ بیوی ناراض ہو کر اپنے گھر والدین کے پاس چلی گئی۔ پھر بیوی نے جا کر کورٹ میں اپنے خاوند کے خلاف کیس درج کرایا کہ اس نے مجھے مارا ہے اور مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔ پھر خاوند نے اپنے دفاع کے لیے ایک وکیل سے بات کی ،وکیل نے کہا کہ آپ سارا معاملہ میرے حوالے کر دیں۔ وکیل نے اپنی طرف سے طلاق نامہ بنوایا اور اس پر اس خاوند کے دستخط کروا کر خاتون کے گھر بھیج دیا۔ جب یہ طلاق نامہ اس خاتون کے پاس پہنچا تو خاتون کے بھائیوں نے اپنے بہنوئی سے رابطہ کیا تو اس نے کہا کہ میں نے طلاق نہیں دی اور مجھے اس کا کوئی علم نہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ آیا یہ طلاق واقع ہوئی یا نہیں جبکہ وکیل کو اس آدمی نے طلاق دینے کا نہیں کہا تھا اور نہ ہی وکیل نے اس آدمی کو اس چیز کی اطلاع دی تھی۔ یہ سارا معاملہ وکیل نے اپنی طرف سے کیا ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

خاوند نے اس شخص کو وکیل بنایا، اس نے طلاق نامہ تیار کیا، خاوند نے اس طلاق نامے پر دستخط بھی کردیے، طلاق نامہ ارسال بھی کردیا، یہ بڑی عجیب بات ہے کہ  اتنا کچھ ہونے کے بعد کہا جائے کہ میرے علم میں بات نہیں تھی۔

ہماری سمجھ کے مطابق ایک رجعی طلاق ہوگئی ہے، خاوند کو عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہے۔ اور اگر عدت گزر چکی ہے تو بعد از عدت تجدیدِ نکاح کافی ہے۔

لیکن اگر خاوند کو واقعتا طلاق نامے کا علم نہیں تھا اور وکیل نے اسے بتائے بغیر دستخط کرواکر انہیں طلاق کے نوٹس پر چسپاں کر دیا، پھر طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ  طلاق کا اختیار خاوند کے پاس ہے،  اس کے بقول نہ اس نے خود طلاق دی ہے اور نہ ہی وکیل کو طلاق کی اجازت دی ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ