سوال (4205)

ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی جن کے چار بچے تھے، وہ کچھ مدرسے میں ادھر ادھر رہ کر بڑے ہوگئے، والد کے انڈر میں والد صاحب خرچہ کرتے تھے، بچے حافظ عالم کا کورس کر کے گھر آئے، اب والدہ کے ساتھ ایک بیٹا الگ رہنا چاہتا ہے، مسجد کے گھر میں والد کہتے ہیں، ان کی ذمداری ان کے والدین کے پاس رہے، اولاد ہمارے پاس رہے تو ماں کا تین گناہ زیادہ حق ہے۔

وقد صحَّ عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال لما سأله سائلٌ: من أحق الناس بحسن صحابتي؟ قال: ((أمُّك)) قال: ثم مَن؟ قال: ((أمك)) قال: ثم من؟ قال: ((أمك)) قال: ثم من؟ قال: أبوك، ثم الأقرب فالأقرب))؛ رواه مسلم.

جواب

ماں اور باپ دونوں کے ساتھ حسن سلوک کا بندہ ذمہ دار ہے، صورت مسئولہ میں والدین کے مابین طلاق کے بعد کشیدگی کی وجہ سے اگر بیٹا جو کہ بالغ ہو چکا ہے اور اس پر کسی کی ولایت نہیں ہے۔ یہ ماں کو اپنے ساتھ الگ رکھنا چاہتا ہے تو اس پر واجب ہے کہ اپنے والد کو بھی خوش کرے اور اپنی ماں کو بھی راضی کرے۔ ماں کو ساتھ رکھنے کی وجہ سے اگر والد ناراض ہوتے ہیں تو انہیں ادب کے ساتھ سمجھائے یا سمجھدار افراد کے ذریعے افھام و تفہیم کی راہ پیدا کرے یا ایسا کوئی راستہ نکالے کہ ماں بھی اس کے ساتھ رہے اور والد بھی راضی رہیں۔ لیکن اگر جمع و تطبیق کی کوئی صورت نہ بن پائے اور ایک طرف ماں کی ناراضگی ہو اور دوسری طرف باپ کی ناراضگی ہو تو پھر سوال میں ذکر کردہ حدیث سے استدلال کرتے ہوئے ماں کے حق کو ترجیح دے۔ الا یہ کہ اس کشیدگی کو دیکھ کر اگر ماں اپنے اس بیٹے کے ساتھ نہ رہنا چاہے لیکن بیٹے سے ناراض بھی نہ ہو تو پھر اسے چاہیے کہ اس کنڈیشن میں کہ جب ماں بھی اس سے راضی ہو رہی ہے اور باپ بھی اس سے راضی ہو رہا ہے تو اس آپشن کو اختیار کر لے۔ واللہ اعلم۔

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ