سوال (3467)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب آپ کے والدین کی موت ہو جائے تو ان کی قبر کے قریب بیٹھ کر اللہ کا ذکر اتنی دیر تک کرو کہ جتنی دیر تک اونٹ ذبح کر کے تقسیم کیا جاتا ہے، کیونکہ جب دفن کیا جاتا ہے تو میت اس طرح پریشان ہو جاتی ہے، جس طرح ایک بندہ سمندر کی لہروں میں ڈوب کے مر رہا ہو جب ذکر ہو رہا ہو تو میت کو پریشان نہیں ہوتی، بلکہ میت بہت خوش ہوتی ہے کہ میری اولاد نے میرا حق ادا کر دیا اس پیاری سی بات کو اتنا پھیلاؤ کہ کوئی بھی اس سے بے خبر نہ رہے۔
اس حدیث میں بیان کردہ مسئلہ کی وضاحت درکار ہے، کیا یہ درست ہے؟
جواب
جھوٹی روایت ہے۔
قبر پر اونٹ ذبح کرکے تقسیم کرنے جتنی دیر تک دعا کرنے کے حوالے سے مرفوعاً کچھ ثابت نہیں. البتہ موقوفاً ثابت ہے، یہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی اپنے بارے میں وصیت تھی۔
[مسلم : 321]
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ
یہ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی اپنے بارے میں وصیت تھی، یہ کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
ایسی کوئی روایت ذخیرہ حدیث میں نہیں ہے، سوائے ایک صحابی کی اپنی اولاد کو وصیت کرنے کے اور مقصود ومراد اس سے زیادہ دیر تک ان کے لئے دعا کا اہتمام کرنا ہے جو درست عمل ہے اس نیت و ارادہ سے زیادہ وقت تک اولاد کا قبر پر رک کر دعا کرنا جائز عمل ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا معنی ومراد لینا باطل ومردود ہے۔
اس مسئلہ میں راقم کا ایک پرانا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
جی یہ وصیت سیدنا عمرو بن العاص رضی الله عنہ نے اپنے بیٹے کو کی تھی۔ موت سے قبل۔۔۔
الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
ﻓﺈﺫا ﺩﻓﻨﺘﻤﻮﻧﻲ ﻓﺸﻨﻮا ﻋﻠﻲ اﻟﺘﺮاﺏ ﺷﻨﺎ، ﺛﻢ ﺃﻗﻴﻤﻮا ﺣﻮﻝ ﻗﺒﺮﻱ ﻗﺪﺭ ﻣﺎ ﺗﻨﺤﺮ ﺟﺰﻭﺭ ﻭﻳﻘﺴﻢ ﻟﺤﻤﻬﺎ، ﺣﺘﻰ ﺃﺳﺘﺄﻧﺲ ﺑﻜﻢ، ﻭﺃﻧﻈﺮ ﻣﺎﺫا ﺃﺭاﺟﻊ ﺑﻪ ﺭﺳﻞ ﺭﺑﻲ
صحیح مسلم: (121)ﺑﺎﺏ ﻛﻮﻥ اﻹﺳﻼﻡ ﻳﻬﺪﻡ ﻣﺎ ﻗﺒﻠﻪ ﻭﻛﺬا اﻟﻬﺠﺮﺓ ﻭاﻟﺤﺞ، مستخرج أبی عوانہ: (200)، المسند المستخرج علی صحیح مسلم: (315)
امام بیھقی کی تبویب۔ ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﻳﻘﺎﻝ ﺑﻌﺪ اﻟﺪﻓﻦسے معلوم ہوتا ہے۔
کہ مراد ان کی طویل دیر تک دعا کرتے رہنے کی درخواست تھی کیونکہ اس عنوان کے تحت دعا کے متعلق امام صاحب حدیث لائے ہیں۔
ﺇﺫا ﻓﺮﻍ ﻣﻦ ﺩﻓﻦ اﻟﻤﻴﺖ ﻗﺎﻝ: اﺳﺘﻐﻔﺮﻭا ﻟﻤﻴﺘﻜﻢ ﻭﺳﻠﻮا ﻟﻪ اﻟﺘﺜﺒﻴﺖ ﻓﺈﻧﻪ اﻵﻥ ﻳﺴﺄﻝ، ( السنن الکبری للبیھقی:(7064) دیکھیے۔
شیخ ﻓﻴﺼﻞ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻌﺰﻳﺰ ﺁﻝ ﻣﺒﺎﺭﻙ اس روایت کی توضیح میں لکھتے ہیں:
ﻭﻓﻴﻪ: ﺇﺛﺒﺎﺕ ﻓﺘﻨﺔ اﻟﻘﺒﺮ، ﻭﺳﺆاﻝ اﻟﻤﻠﻜﻴﻦ، ﻭاﺳﺘﺤﺒﺎﺏ اﻟﻤﻜﺚ ﺑﻌﺪ اﻟﻘﺒﺮ، ﻭاﻟﺪﻋﺎء ﻟﻪ
تطریز ریاض الصالحین:ص:459
فضيلة الشيخ فقيه العصر ابن عثيمين رحمه الله تعالى رحمة واسعة ریاض الصالحین کے اس مقام پر یوں توضیح فرماتے ہیں:
ﺑﺎﺏ اﻟﻮﻗﻮﻑ ﺑﻌﺪ ﺩﻓﻦ اﻟﻤﻴﺖ ﻭاﻟﺪﻋﺎء ﻟﻪﻭاﻻﺳﺘﻐﻔﺎﺭ ﻟﻪ ﻭﺫﻟﻚ ﺃﻥ اﻟﻤﻴﺖ ﺇﺫا ﺩﻓﻦ ﻓﺈﻧﻪ ﻳﺄﺗﻴﻪ ﻣﻠﻜﺎﻥ ﻳﺴﺄﻻﻥ ﻋﻦ ﺭﺑﻪ ﻭﺩﻳﻨﻪ ﻭﻧﺒﻴﻪ ﻓﻜﺎﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺇﺫا ﻓﺮﻍ ﻣﻦ ﺩﻓﻦ اﻟﻤﻴﺖ ﻭﻗﻒ ﻋﻠﻴﻪ ﻳﻌﻨﻲ ﻋﻨﺪﻩ ﻭﻗﺎﻝ اﺳﺘﻐﻔﺮﻭا ﻷﺧﻴﻜﻢ ﻭاﺳﺄﻟﻮا ﻟﻪ اﻟﺘﺜﺒﻴﺖ ﻓﺈﻧﻪ اﻵﻥ ﻳﺴﺄﻝ ﻓﻴﺴﻦ ﻟﻹﻧﺴﺎﻥ ﺇﺫا ﻓﺮﻍ اﻟﻨﺎﺱ ﻣﻦ ﺩﻓﻦ اﻟﻤﻴﺖ ﺃﻥ ﻳﻘﻒ ﻋﻨﺪﻩ ﻭﻳﻘﻮﻝ اﻟﻠﻬﻢ اﻏﻔﺮ ﻟﻪ ﺛﻼﺙ ﻣﺮاﺕ اﻟﻠﻬﻢ ﺛﺒﺘﻪ ﺛﻼﺛﺎ ﻷﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺎﻥ ﻏﺎﻟﺐ ﺃﺣﻴﺎﻧﻪ ﺇﺫا ﺩﻋﺎ ﺩﻋﺎ ﺛﻼﺛﺎ ﺛﻢ ﻳﻨﺼﺮﻑ ﻭﻻ ﻳﺠﻠﺲ ﺑﻌﺪ ﺫﻟﻚ ﻻ ﻟﻠﺬﻛﺮ ﻭﻻ ﻟﻠﻘﺮاءﺓ ﻭﻻ ﻟﻻﺳﺘﻐﻔﺎﺭ ﻫﻜﺬا ﺟﺎءﺕ ﺑﻪ اﻟﺴﻨﺔ ﺃﻣﺎ ﻣﺎ ﺫﻛﺮﻩ ﺭﺣﻤﻪ اﻟﻠﻪ ﻋﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ اﻟﻌﺎﺹ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﺃﻧﻪ ﺃﻣﺮ ﺃﻫﻠﻪ ﺃﻥ ﻳﻘﻴﻤﻮا ﻋﻨﺪﻩ ﺇﺫا ﺩﻓﻨﻮﻩ ﻗﺪﺭ ﻣﺎ ﺗﻨﺤﺮ ﺟﺰﻭﺭ ﻗﺎﻝ ﻟﻌﻠﻲ ﺃﺳﺘﺄﻧﺲ ﺑﻜﻢ ﻭﺃﻧﻈﺮ ﻣﺎﺫا ﺃﺭاﺟﻊ ﺑﻪ ﺭﺳﻞ ﺭﺑﻲ ﻳﻌﻨﻲ اﻟﻤﻼﺋﻜﺔ ﻓﻬﺬا اﺟﺘﻬﺎﺩ ﻣﻨﻪ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻟﻜﻨﻪ اﺟﺘﻬﺎﺩ ﻻ ﻧﻮاﻓﻘﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻷﻥ ﻫﺪﻱ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻛﻤﻞ ﻣﻦ ﻫﺪﻱ ﻏﻴﺮﻩ ﻭﻟﻢ ﻳﻜﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻘﻒ ﺃﻭ ﻳﺠﻠﺲ ﻋﻨﺪ اﻟﻘﺒﺮ ﺑﻌﺪ اﻟﺪﻓﻦ ﻗﺪﺭ ﻣﺎ ﺗﻨﺤﺮ اﻝﺟﺰﻭﺭ ﻭﻳﻘﺴﻢ ﻟﺤﻤﻬﺎ ﻭﻟﻢ ﻳﺄﻣﺮ ﺃﺻﺤﺎﺑﻪ ﺑﺬﻟﻚ ﻏﺎﻳﺔ ﻣﺎ ﻫﻨﺎﻟﻚ ﺃﻧﻪ ﺃﻣﺮﻫﻢ ﺃﻥ ﻳﻘﻔﻮا ﻋﻠﻰ اﻟﻘﺒﺮ ﻭﻳﺴﺘﻐﻔﺮﻭا ﻟﺼﺎﺣﺒﻪ ﻭﻳﺴﺄﻟﻮا ﻟﻪ اﻟﺘﺜﺒﻴﺖﻓﻘﻂ ﻫﺬا ﻫﻮ اﻟﺴﻨﺔ ﺛﻢ ﻳﻨﺼﺮﻑ اﻟﻨﺎﺱ ﻭﺃﻣﺎ اﻟﻘﺮاءﺓ ﻋﻨﺪ اﻟﻘﺒﺮ ﻓﺎﻷﺻﺢ ﺃﻧﻬﺎ ﻣﻜﺮﻭﻫﺔ ﻭﺃﻧﻪ ﻳﻜﺮﻩ ﻟﻹﻧﺴﺎﻥ ﺃﻥ ﻳﺬﻫﺐ ﺇﻟﻰ اﻟﻘﺒﺮ ﺛﻢ ﻳﻘﻒ ﺃﻭ ﻳﺠﻠﺲ ﻋﻨﺪﻩ ﻭﻳﻘﺮﺃ ﻷﻥ ﻫﺬا ﻣﻦ اﻟﺒﺪﻉ ﻭﻗﺪ ﻗﺎﻝ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﻞ ﺑﺪﻋﺔ ﺿﻼﻟﺔ ﻭﺃﻗﻞ ﺃﺣﻮاﻟﻬﺎ ﺃﻥ ﺗﻜﻮﻥ ﻣﻜﺮﻭﻫﺔ ﻭاﻟﻠﻪ اﻟﻤﻮﻓﻖ، شرح ریاض الصالحین: 4/ 561 ،562
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ