سوال

ایک بندہ اپنے سالے کو قتل کرتا ہے، جس کی وجہ سے اسے عمر قید کی سزا ملتی ہے، وہ جیل کے اندر چلا جاتا ہے، اس کی چھوٹی بچی ہے جو ابھی قتل کرنے کے بعد پیدا ہوئی، بیوی خلع لیتی ہے، اپنے ماں باپ کے گھر آ جاتی ہے۔  دوسرا جو اس کا سالا اور لڑکی کا ماموں ہے، وہ اس لڑکی کے پیدا ہونے کے بعد اس کی پرورش کرتا ہے، اس کی دینی و دنیاوی تعلیم مکمل کرواتا ہے، وہ بالغہ ہوتی ہے تو نکاح کی ذمہ داری گھر میں سے ظاہر ہے کہ اسی کے ذمے ہوگی۔

اس کا باپ جیل سے 20/25 سال کی عمر قید کاٹ کر ابھی رہا ہوا ہے،  آپس کے اندر ان کی بول چال بھی نہیں ہے، اب اس صورت میں ولی کس کو بنایا جائے گا، اس کا باپ ہی بنے گا  یا اس کا ماموں بھی ولی بن سکتا ہے؟ اسکے متعلق رہنمائی فرما دیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

ولی کے لیے کچھ شرائط ہیں، جیسا کہ وہ  (1) عاقل و بالغ ہو  (2)  ذی رشد ہو (3) اور باپ یا اسکے رشتےدار یعنی عصبہ ميں سے ہو۔

اس لحاظ سے اولیاء بالترتیب درج ذیل لوگ ہوسکتے ہیں:

عورت کا والد پھر دادا پھر بیٹا، پھر بھائی پھر چچا وغیرہ  ۔ [الشرح الممتع لابن عثيمين:12/84]

ذی رشد ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ بچی کے نفع و نقصان میں تمیز کرسکتا ہو، اور کھوٹے کھرے کی پہچان رکھتا ہو اور وہ بچی کا خیر خواہ بھی ہو۔

صورتِ مسؤلہ میں  چونکہ بچی کے باپ کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے تو  ولایت کی ذمہ داری اوپر ذکر کردہ رشتہ داروں میں سے کسی اور کو سونپی جا سکتی ہے۔

لیکن ماں کی طرف سے جو رشتے دار ہیں، جیسے ماموں یا ماموں کا بیٹا ہے، یہ ولایت کے حقدار نہیں ہیں،  الا یہ کہ ایک ہی خاندان ہونے کی وجہ سے ماموں بھی عصبہ میں سے ہو اور لڑکی کا قریب تر عصبہ ہو تو اس صورت میں ماموں بحیثیت عصبہ  ولی بن سکتا ہے۔ مثلا کسی شخص کی شادی اپنے چچا/تایا کی طرف ہوئی ہو، اس طرح اسکے چچا یا تایا کے بیٹے اسکے سالے اور اسکے بچوں کے ماموں ہوئے، پھر اس صورت میں یہ باپ کی طرف سے بطور عصبہ ولی بن سکتے ہیں۔

لیکن اگر نہ تو باپ کی طرف سے ولی راشد ہو اور نہ ہی دوسری طرف عصبہ رشتہ داری ہو، تو اس صورت میں بچی کو بلا ولی تصور کیا جائے گا اور اس کے متعلق شریعت کا اصول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا درج ذیل فرمان ہے:

“السُّلْطَانُ وَلِيُّ مَنْ لَا وَلِيَّ لَهُ”. [سنن أبی داؤد: 2083]

’’ جس کا کوئی ولی نہ ہو، اس کا  حاکم ولی ہے ‘‘۔

یعنی جس کا کوئی ولی نہ ہو، یا ولی جھگڑا کریں، یا ولی غیر راشد ہوں تو پھر عدالت اس کی ولایت کے فرائض سر انجام دے گی، یعنی پھر ولی عدالت کا حاکم یا قاضی ہوگا اور عدالت کی موجودگی میں اس کا نکاح کروا دیا جائے۔

خلاصہ یہ ہے کہ صورتِ مسؤلہ میں سب سےپہلے باپ ولی ہو گا، لیکن اگر ممکن نہ ہو تو پھر دیگر عصبہ رشتہ دار  اور اگر وہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر معتبر قاضی یا حاکم یا ان کا کوئی قائم مقام۔ واللہ اعلم

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ