سوال (5356)
سوال نمبر: 1 میں نے ایک کروڑ کی زمین فروخت کی ہے، اس میں سے میں اپنے لیے کتنی رقم رکھ کر باقی اولاد میں تقسیم کرسکتا ہوں؟
سوال نمبر: 2 اس وقت میں اپنی اولاد میں سے جس کے ساتھ رہائش پذیر ہوں وہ میری خدمت اور ہر قسم کے اخراجات برداشت کرتا ہے۔
کیا میں اپنے پاس اضافی رکھی ہوئی وہ رقم اس بچے کو خرچ کے لیے دے سکتا ہوں؟
جواب
اس میں آپ نے دو سوال کیے ہیں۔
پہلا یہ کہ ایک کروڑ میں سے باپ اپنے لئے کتنی رقم رکھ سکتا ہے اس میں ابہام ہے کہ کم سے کم خود کتنی رکھ سکتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ کتنی رکھ سکتے ہیں؟ دونوں صورتوں میں جواب مختلف ہو گا۔
دونوں صورتوں کے جواب سے پہلے سمجھ لیں کہ ایک والد کو اپنی جائداد میں سے سب سے پہلے مندرجہ ذیل خرچے پورے کرنا لازم ہوتے ہیں۔
1۔ اپنا جائز خرچہ۔
2۔ اگر کوئی اولاد اپنے خرچے خود پورے نہیں کر سکتی تو اسکا جائز خرچہ پورا کرنا۔
3۔ اپنی زکوۃ ادا کرنا۔
4۔ بچی ہوئی جائداد میں سے اللہ کے راستے میں حسب ضرورتِ معاشرہ اور حسبِ ایمان صدقہ کرنا۔
اسکے بعد بھی اگر جائداد یا کوئی رقم بچ جاتی ہے تو زیادہ سے زیادہ تو وہ ساری رقم اپنے پاس رکھ سکتا ہے بچوں کو نہ بھی دے کوئی ممانعت نہیں ہے۔
ہاں کم سے کم کتنی رکھ سکتا ہے اس سلسلے میں نص میں واضح حد تو نہیں البتہ بخاری میں سعد ؓ کو نبیﷺ نے وارثوں کو محتاج چھوڑنے کی بجائے دولت مند چھوڑنے کا حکم دیا تھا اور تہائی سے زیادہ وصیت سے منع فرمایا تھا تو اس میں علت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپنے مستقبل اور اسکے زیر خرچہ بچوں کا مستقبل دیکھ کر یہ فیصلہ کرے کہ کتنی زیادہ سے زیادہ اسکو اپنے پاس اس مستقبل کے لئے رکھنا چاہئے۔
دوسرے سوال میں پوچھا گیا تھا کہ ایک اولاد خدمت اور ھرقسم کے اخراجات برداشت کرتی ہے تو اضافی رقم سے اس اولاد کو خرچ کے لیئے دےسکتاہوں۔
اگر تو اس اولاد کو اس لئے دے رہے ہیں کہ وہ والد کے لئے خرچہ کرے تو پھر تو جائز ہے کیونکہ اوپر لکھا ہے کہ سب سے پہلے والد اپنے خرچے پورے کرے گا چاہے کسی کے ہاتھ سے ہوں اور اگر اضافی رقم اس اولاد کو اس لئے دے رہے ہیں کہ اسکے خرچے پورے نہیں ہوتے تو وہ بھی جائز ہے اور وہ اوپر لکھ دیا ہے کہ اس کے بعد اپنی اولاد میں سے جو خرچے پورے نہیں کر سکتی اسکے خرچے پورے کرے گا۔
لیکن اگر ایسی دونوں صورتیں نہیں ہیں تو پھر وہ کسی ایک اولاد کو بغیر حساب کتاب کے نہیں دے سکتی جب تک سب کو نہ دے۔
دیکھیں ایک اہم اصول یاد رکھیں کہ والد کی جائیداد جو اوپر خرچوں سے بچ جاتی ہے اس میں سے ایک تہائی وہ اپنی مرضی سے خرچ کر سکتا ہے باقی اسکے وارثوں میں جانی ہوتی ہے اور اولاد میں انصاف کرنے کیا واضح حکم موجود ہے پس اولاد کے معاملے میں وہ بغیر حساب کے کچھ نہیں کر سکتا ہے باقی معاملات میں وہ بغیر حساب کے کر سکتا ہے۔
اسکو ایک مثال سے سمجھتے ہیں مثلا ایک واپڈا کا دفتر کسی کرایہ کی جگہ پہ ہے وہ مالک مکان واپڈا سے کرایہ نہیں لیتا اب واپڈا والے کہتے ہیں کہ ہم بھی اسکا میٹر ڈاریکٹ کر دیتے ہیں کیونکہ وہ واپڈا کو ہی فائدہ دے رہا ہے۔ کیا واپڈا والے ایسا کر سکتے ہیں؟ نہیں کیونکہ یہ واپڈا کا پیسہ بہت سے لوگوں کی امانت ہوتی ہے اس سے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسکا کرایہ کم ہو اور بجلی جو وہ ڈائریکٹ استعمال کرتا ہے وہ زیادہ ہو جائے تو یہ نا جائز ہو گا پس اسکا حساب رکھنا لازم ہو گا ہاں اگر وہ مالک مکان کہتا ہے کہ میں کرایہ بھی نہیں لیتا اور بجلی کا بل بھی پورا دوں گا تو یہ اسکی مرضی ہے۔
اسی طرح اگر وہ بیٹا جو والد کی خدمت کرتا ہے اسکو والد کی اس اضافی رقم سے بغیر حساب کے نہیں دے سکتے جس پہ دوسرے بچوں کا بھی حق ہے کہ کہیں وہ والد پہ خڑچہ سے زیادہ نہ لے جائے پس اگر خرچہ کرنے والا اللہ کے لئے کر رہا ہے تو اسکو یہ نہیں مانگنا چاہئے اور اگر وہ اللہ کے لئے نہیں کر رہا ہے تو اسکو پھر پورا اپنے خرچے کا حساب رکھنا چاہئے اور اتنا وہ والد سے لے سکتا ہے۔
ہاں یاد رکھیں یہ معاملہ صرف اولاد کے لئے ہو گا باہر کے لوگوں کے لئے نہیں ہو گا مثلا اگر اسی والد کے دوست اس والد کو کچھ تحائف دے جاتے ہیں اسکی مختلف طریقے سے مدد کرتے رہتے ہیں تو وہ والد ان دوستوںکی بغیر حساب کے مدد کر سکتا ہے لیکن ایک تہائی مال تک۔ کیونکہ ان دوستوں پہ خرچ کرنے میں برابری کا خیال رکھنا لازمی نہیں ہے۔ واللہ اعلم
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ
شیخ محترم پوائنٹ 2 کی مزید وضاحت فرما دیں۔ بارک اللہ فیکم
کیا کوئی شخص اپنی اولاد میں سے کسی ایک کو اس لیے دے سکتا ہے کہ اس کے خرچے پورے نہیں ہوتے؟
جائز خرچے سے کیا مراد ہے؟
اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مجھے ظلم پر گواہ نہ بناؤ اور اعدلوا بین اولادکم یہ اس کے خلاف نہیں؟جزاکم اللہ خیرا
فضیلۃ الباحث ڈاکٹر عبد الرحمٰن حفظہ اللہ
مجھے آپ کی الجھن کی سمجھ آ گئی ہے آپ نعمان بن بشیر والی روایت کی بات کر رہے ہیں،
دیکھیں ایک اصول یاد رکھیں کہ ہر بندے کے ذمے کچھ لوگوں کا خرچہ ہوتا ہے اسی میں ایک اسکی اولاد ک کی جائز ضروریات بھی ہیں (جائز سے مراد جو اسراف یا فضول خرچی نہ ہو بلکہ اسکی ضرورت ہو)
اب شریعت میں جس بندے کے اوپر جس کا خرچہ ہوتا ہے اسکو وہ زکوۃ نہیں دے سکتا اسکا مفہوم مخالف یہ ہوا کہ جو بندی جس کو زکوۃ نہیں دے سکتا اس کا خرچہ پھر اسکے ذمہ ہوتا ہے۔
مثلا شوہر اپنی بیوی اور بچوں کو زکوۃ نہیں دے سکتا تو اسکا مفہوم مخالف ہوا کہ پھر ان کا خرچہ اس شوہر یا والد کے ذمہ ہو گا۔
اسکے برعکس بیوی کے ذمے شوہر کا خرچہ نہیں ہوتا پس بیوی اپنے شوہر کو زکوۃ دے سکتی ہے جیسا کہ بخاری میں ابن مسعودؓ کی بیوی نے نبی ﷺ سے اپنے شوہر کو صدقہ دینے کا پوچھا تو اجازت مل گئی۔
اب میں نے پوائنٹ نمبر 1 میں لکھا تھا کہ اولاد کی جائز ضروریات والد کو پہلے پوری کرنی ہیں کیونکہ والد اپنی اولاد کو زکوۃ نہیں دے سکتا ۔ البتہ اگر والد کے پاس اولاد کی جائز ضروریات پورے کرنے کی استطاعت نہ ہو تو پھر اسکے ذمے اولاد کے خرچے نہیں ہوں گے جسکا مفہوم مخالف ہو گا کہ وہ اولاد کو بھی زکوۃ دے سکتا ہے(ابن عثیمین سے بھی اس پہ فتوی موجود ہے)
اسی لئے اوپر پوائنٹ نمبر 1 میں کہا تھا کہ چونکہ والد کے پاس اولاد کی ضروریات پوری کرنی کی استطاعت موجود ہے جو وہ ان کو رقم دے رہا ہے تو پہلے وہ ضرورت مند اولاد کی ضرورت پوری کرے گا اور یہ زکوۃ نہیں ہو گی یہ پوری کرنے کے بعد اسکے پاس کچھ بچتا ہے تو پھر زکوۃ اور پھر صدقہ دے گا۔
اسکے بعد بھی کچھ بچتا ہے تو اب وہ نعمان بن بشیر والی حدیث کی باری آئے گی کہ اب مزید وہ کسی کو ضرورت سے زیادہ دے گا تو اس میں انصاف کرے گا۔
آپ کی الجھن یہ تھی کہ اولاد کی ضروریات پوری کرنے میں برابر برابر کیوں نہیں دیا گیا تو پیارے بھائی یہ برابر برابر تو بعد میں شروع ہوتا ہے پہلے ہر والد کے لئے اپنے زیر کفالت لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا ہے اور ضروریات پوری کرنے میں انصاف مساوات سے نہیں بلکہ عدل سے حاصل ہوتا ہے عدل اور مساوات میں فرق ہے مساوات یہ ہے کہ چھوٹے بچے کو اگر ایک روٹی دی ہے تو جوان بچے کو بھی ایک روٹی دی جائے اور عدل یہ ہے کہ چھوٹے بچے کی ضڑورت ایک روٹی ہے تو اسکو ایک دی جائے اور بڑے بچے کی ضڑورت تین روٹیاں ہیں تو اسکو تین دی جائیں یہ نعمان بن بشیر والی روایت کے مخالف نہیں ہو گا خوب اچھی طرح سمجھ لیں۔
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء شیخ جی، آپ نے لکھا ہے کہ والد کے پاس بچوں کی جائز ضروریات پوری کرنے کی استطاعت نہیں ہے، اس کا مفہوم مخالف یہ ہوگا کہ وہ انہیں زکاۃ دے سکتا ہے، یہ تھوڑا سا عجیب لگ رہا ہے کہ ایک طرف سے آپ بتا رہے ہیں کہ وہ صاحب زکاۃ ہے، ایک طرف سے یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اولاد کا خرچہ بھی نہیں اٹھاتا ہے، جو اولاد کا خرچہ نہیں اٹھا سکتا، وہ صاحب زکاۃ کیسے ہوگیا ہے؟ یہ اشکال ہے، اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
شادی شدہ بچوں میں سے والد کسی ایک کو اس کی ضرورت کے تحت دے سکتا؟ زیر کفالت غیر شادی شدہ بچے زیر بحث نہ سمجھیں۔ شکریہ
فضیلۃ الباحث ڈاکٹر عبد الرحمٰن حفظہ اللہ
شیخ محترم واللہ بلا تکلف میں آپ جیسے شیخ کے سامنے ایک ادنی طالب علم ہوں البتہ آپ نے جو پوچھا ہے اس بارے میں میں نے اوپر ابن عثیمین کا بھی حوالہ لکھا تھا ہاں اسکی کچھ تفسیر یا وضاحت اپنی سمجھ سے کی تھی۔
شیخ محترم میں نے ترتیب بتائی تھی کہ پہلے والد کا خرچہ اور اسکی زیر کفالت لوگوں کا خرچہ ادا کرنا ہوتا ہے لیکن اگر والد کی کمائی یا جائیداد خالی اپنے خرچے پوری کر سکتی ہے اولاد کے خرچے پورے نہیں کر سکتی تو پھر والد پہ اولاد کا خرچہ فرض ہی نہیں رہتا کیونکہ استطاعت ہی نہیں اور جس کا خرچہ ہمارے اوپر فرض نہ ہو اسکو ہم زکوۃ دے سکتے ہیں تو ایسی صورت میں ہم اولاد کو زکوۃ دے سکتے ہیں۔
آپ نے اسکی ممکنہ صورت پوچھی ہے تو وہ ایسے ہو سکتی ہے کہ اولاد کا جائز خرچہ کبھی کوئی قرض یا کوئی ایکسیڈنٹ وغیرہ یا کوئی بیماری وغیرہ کی وجہ سے والد کی استطاعت سے نکل جاتا ہے تو اسکی زکوۃ کا وہ حقدار بن جاتا ہے۔
جیسا کہ اب ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف الاختيارات (ص 104)میں ہے کہ:
“والدین اور آباؤ اجداد کو اسی طرح اپنی نسل یعنی پوتے پوتیوں کو زکاۃ دینا جائز ہے، بشرطیکہ یہ لوگ زکاۃ کے مستحق ہوں اور زکاۃ دینے والے کے پاس اتنا مال نہ ہو جس سے ان کا خرچہ برداشت کر سکے، یا ان میں سے کوئی مقروض ہو یا ،مکاتب ہو یا مسافر ہو تب بھی ان پر خرچ کر سکتا ہے، اسی طرح اگر ماں غریب ہو، اور اس کے بچوں کے پاس مال ہو، تو ماں کو بچوں کے مال کی زکاۃ دی جا سکتی ہے۔”
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا موقف انکے مجموع الفتاوى(18/508) میں یوں ہے۔
“اگر والد اپنی اولاد کو زکاۃ اس لیے دینا چاہتا ہے کہ اسے اولاد کا خرچہ نہ دینا پڑے تو یہ جائز نہیں ہے، لیکن اگر والد اپنے بیٹے کی طرف سے قرض اتارنا چاہے تو قرض اتار سکتا ہے، مثلاً: بیٹے نے کسی کی گاڑی کو ٹکر ماری اور حادثہ ہو گیا، اور دوسری گاڑی کا خرچہ 10000 ہزار ریال بنا تو والد اس حادثے کی وجہ سے 10000 ریال اپنی زکاۃ سے دے سکتا ہے”
اب ان دونوں فتاوی کے لحاظ سے باپ کے پاس اولاد کا خرچہ دینے کی حاجت نہیں تھی تو ان کو زکوۃ دے سکتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ
پھر آپ بریکٹ میں یہ وضاحت کریں کہ وہ بچہ والدین کی کفایت سے نکل چکا ہے، اپنی معیشت و معاش کا خود ذمے دار ہے، یعنی شادی شدہ ہو کر الگ ہو چکا ہے، ایک صورت میں ایک خاص حادثہ پیش آئے تو والدین اپنے ذاتی خرچے سے نہ دے سکیں تو زکاۃ دے سکتے ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
شیخ محترم واقعی آپ کی بات درست ہے مجھے یہ وضاحت دینی چاہئے تھی کہ جو کفالت سے نکل گیا اسکو حادثہ پیش آ گیا تو دوبارہ کفالت میں آ گیا لیکن اسکی کفالت والد نہیں کر سکتا البتہ والد کے پاس سونا ہے جسکی زکوۃ دینا لازم ہے تو وہ اس سے اس بیٹے کی کفالت کر سکتا ہے۔
اصل میں شیخ محترم میں نے یہ اوپر لکھا تھا کہ جب جو اولاد اپنے خرچے پورے نہیں کر سکتی چاہے ایکسیڈنٹ سے ہو یا بغیر ایکسیڈنٹ سے عام ضروریات کے خرچے ہوں وہ خرچے پورے کرنا بھی والد کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے چاہے بچے انکی کفالت سے نکل چکے ہوں یعنی بچے اصلا ہمیشہ کفالت میں ہی تصور کیے جاتے ہیں تبھی تو انکو زکوۃ نہیں دی جا سکتی، میں نے یہ سمجھتے ہوئے وضاحت لکھنا بھول گیا تھا آپ کا بہت بہت شکریہ آپ نے اصلاح کر دی۔ جزاکم اللہ خیرا
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ