سوال
ہمارے ہاں رواج ہے مرنے کے بعد تیسرا ، دسواں، چالیسواں اور برسی وغیرہ کرتے ہیں۔ میری ساس میرے خاوند کو کہہ رہی ہے کہ جب چالیس دن پورے ہوں تو آپ نےچالیسواں کرنا ہے۔تو کیا میرے خاوند چالیسواں کرنا چاہیے ؟ اور کیا وہ نہ کرکے والدہ کے نافرمان تصور تو نہیں ہوں گے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
اس میں دو چیزیں قابل غور ہیں:
1: مسئلہ کی نوعیت اور اس کا شرعی حکم 2: آپ کا ان کے ساتھ تعامل
جہاں تک تعلق مسئلہ کی نوعیت اور اس کا شرعی حکم ہے، تو شریعت میں اس طرح کی رسومات ثابت نہیں ہیں۔
جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں آپ کا بیٹا ابراہیم فوت ہوا، اسی طرح آپ کی بیٹیاں حضرت رقیہ ، ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہما آپ کی حیات طیبہ میں فوت ہوئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کا تیسواں، دسواں، چالیسواں نہیں کیا۔
کیونکہ یہ تمام رسم و رواج ہیں، اور بہت بعد کی پیداوار ہیں، ان سے بچنا ضروری ہے۔ جو چیز بھی عبادت سمجھ کر کی جائے اور اس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہ ہو تو اسے بدعت کہتے ہیں۔ جیسا کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
“مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ”.[مسلم:1718]
’جس نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی ایسی نئی بات شروع کی جو اس میں نہیں تو وہ مردود ہے‘۔
اور صحیح مسلمان ہونے کے لیے بدعت سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
ایسا کرنے سے بدعت کا گناہ الگ ہوتا ہے اور میت کو بھی اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
حدیث پاک میں ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
“لَيَرِدَنَّ عَلَيَّ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِي الْحَوْضَ حَتَّى عَرَفْتُهُمْ اخْتُلِجُوا دُونِي فَأَقُولُ أَصْحَابِي فَيَقُولُ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ”.[صحیح البخاری:6582]
’میرے کچھ امتی حوض پر میرے سامنے لائے جائیں گے، اور میں انہیں پہچان لوں گا لیکن پھر وہ میرے سامنے سے ہٹا دیے جائیں گے۔ میں اس پر کہوں گا کہ یہ تو میرے امتی ہیں۔ لیکن مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں۔
اس حدیث میں اہل بدعت کے لیےکتنی سخت وعید ہے !
اور جہاں تک تعلق ہے والدین کی اطاعت کا ہے تو اس کے بارے میں آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ”.[صحیح البخاری:7257]
’اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں۔ اطاعت صرف نیک کاموں میں ہوتی ہے‘۔
اس لیے اگر آپ کا خاوند ماں کے کہنے پر دن مقرر کرکے ختم اور دعا کرے گا، تو وہ اللہ کی نافرمانی کرے گا جو کہ جائز نہیں ہے۔
لہذا آپ کے خاوند کو چاہیے کہ اپنی ماں کو ادب سے اور احسن طریقے سے سمجھا ئے کہ اس طرح کا کوئی کام شریعت میں جائز نہیں ہے، ہمارے ذمہ دعا کرنا ہے وہ ہم کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
بالفرض اگر والدہ نہ بھی مانے پھر بھی آپ کو یہ کام نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اللہ کی رضا مقدم ہے، ان شاءاللہ ماں بھی راضی ہو جائے گی۔جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
“وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا”.[الطلاق:65]
’جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے نکلنے کا راستہ نکال دیتا ہے‘۔
لہذا آپ کو چاہیے کہ ان رسم و رواج سے دور رہیں ۔ اور قرآن و سنت پر عمل کریں ، اس سے اللہ تعالی بھی راضی ہو گا اور آخر کار لوگ بھی راضی ہو جائیں گے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ