سوال (4904)
ہم آٹھ بہن بھائی تھے، چار بہنیں چار بھائی 1998/99 تک دو بہنوں کی شادی ہو چکی تھی، 1998/99 میں بھائیوں میں اختلاف پیدا ہوگیا دو بھائیوں نے کام کرنے سے انکار کر دیا، والد صاحب نے اختلافات کو ختم کرنے کے لیے اپنی ساری جائیداد تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا، والد صاحب نے اپنی ساری جائیداد 7 حصے کیے، ایک اپنے لیے، ایک والدہ کے لیے، ایک اپنی دو چھوٹی بیٹیوں کے لیے اور ایک ایک اپنے چاروں بیٹوں کے لیے اور شادی شدہ بیٹیوں کے لیے کہا کہ وہ اپنا حصہ لے چکی ہیں
اپنا اپنی بیوی اور اپنی دو چھوٹی بیٹیوں کے حصے میرے حوالے کر دیے اور کہا کہ ھم میاں بیوی اور یہ تمہاری دو چھوٹی بہنیں تمہارے ساتھ ہیں، تم نے اپنی بہنوں کا حصہ ان کی شادی پر خرچ کرنا ہے اور اس طرح 3 حصے میرے حوالے کر دیے، بھائیوں کو میں نے نقد رقم ادا کر کے میں نے تمام جائیداد اپنے نام انتقال کروا لی، سن 2008 میں والد صاحب کی وفات ہوگئی، سن 2010 میں میں نے ایک بہن کی شادی کی اور اسکاحصہ والد صاحب کی وصیت کے مطابق اس کی شادی پر خرچ کیا، 2020 میں دوسری بہن کی شادی کی اور اس کا حصہ بھی اس کی شادی پر خرچ کیا۔
2023 والدہ صاحبہ کا بھی انتقال ہو گیا، اب بہنوں نے مطالبہ کیا کہ والد صاحب نے تمام جائیداد تمہارے نام کر دی ہے اور ہمارا حصہ نہیں دیا اور جو رقم تم نے ھماری شادی پر خرچ کی اس سے وراثت ادا نہیں ھوتی وہ تحفہ ہے اور ھماری وراثت ابھی تک باقی ہے۔
میں نے ان کا مطالبہ تسلیم کیا اور اپنا ایک مطالبہ پیش کردیا کہ میں نے جو رقم آپکے جہیز کی مد میں خرچ کی وہ آپنی طرف سے نہیں خرچ کی والد صاحب کے نائب کی حیثیت سے خرچ کی تو یہ تحفہ والد کی طرف سے ہوا
اور والدین کو اپنی تمام اولاد کو برابر تحائف دینے چاہئیں، اس طرح تحائف برابر کر کے باقی جائیداد کو شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم کر لیتے ہیں اس کے بارے میں راہنمائی درکار ہے۔ کیا یہ درست ہے؟ اور اب کیا کیا جائے؟ معاملات کیسے نمٹائے جائیں؟
جواب
بظاہر تو یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں گفٹ دیا تھا، اپنے حساب سے شاید برابری کرنے کی کوشش کی تھی، اگر برابری ہوگئی تھی اور ورثاء مطمئن ہیں تو پھر کوئی ابہام و اشکال نہیں ہے، باقی جو اپنے لیے رکھا تھا، وہ ترکہ بن جائے گا، اس میں جس کا جو حصہ ہوگا وہ مل جائے گا، اگر وہ برابری نہیں ہوئی ہے، ورثاء شکایت کر رہے ہیں، پھر برابری ابھی بھی کی جا سکتی ہے، خواہ وہ برابری پیسے سے کرلیں، یا کسی چیز کے ذریعے سے کرلیں، کوشش کریں کہ معاملہ اچھے طریقے سے حل ہو، تیسری صورت آپ نے خود ذکر کی ہے، وہ بھی ٹھیک ہے، پہلے جو ہوا ہے، وہ ہوگیا ہے، اب جس کا حصہ ہے، وہ اپنا حصہ لے لے، ممکن ہو کسی عالم دین کے پاس میٹنگ رکھ لیں، چند ورثاء بھی ساتھ ہوں، وہ جو فتویٰ دیں، اس پر عمل کرلیا جائے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ