سوال (3144)
والد صاحب بینک میں نوکری کرتے تھے، اب ان کی وفات ہو گئی ہے، ان کی جو ساری جائیداد تھی، جو وراثت ہے، وہ بینک کی آمدنی سے ہی تھی، اب اولاد کے لیے اس میں کیا حکم ہے، کیا اولاد کے لیے وراثت جائز ہے؟
جواب
اس سوال کے دو پہلو ہیں، ان میں سے ایک رخصت اور ایک عزیمت ہے، عزیمت تو یہ ہے کہ جب ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ بینک کی کمائی سے جائیداد بنی ہے، یہ حلال کمائی نہیں ہے، تو اس کو چھوڑ دیں، رزق دینے والی ذات اللہ تعالیٰ ہے، لیکن یہ استعمال کریں، تو ان کے لیے استعمال کرنے کو حرام کہنا اتنا آسان نہیں ہے، کیونکہ حرام ان کے والد نے کمایا ہے، جن کا خون چوس کر یہ جائیداد بنی ہے، ان کا بھی علم نہیں ہے، رخصت اور عزیمت دونوں پہلو موجود ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ
بات ایسے ہی ہے، جیسے شیخ محترم نے عرض کیا ہے، عزیمت کا راستہ اختیار کریں تو اللہ تعالیٰ برکتیں دے گا، اللہ تعالیٰ پر اعتماد کریں، تقوی اختیار کریں، دل کا تقوی اختیار کریں، باقی رخصت اختیار کریں تو کمانے والے جوابدہ ہیں، آپ جوابدہ نہیں ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: کیا یہ پہلو نکال سکتا ہے کہ اندازاً، وراثت میں سے اتنی رقم نکال دی جائے، جس کا اندیشہ ہے کہ وہ بینک کی آمدنی سے تھی، مثال کے طور پہ جو گھر 1995 میں 12 لاکھ کا لیا اور آج 70 لاکھ کا ہوا ہے تو اس میں سے وہ مالیت 12 لاکھ نکال دی جائے اور باقی کے حصے کر لیے جائیں۔
جواب: اگر کلی آمدنی بینک سے ہے تو اوپر میں نے یا شیخ نے ذکر کیا ہے، اس سے آپ کو تسلی ہو جانی چاہیے، اگر حلال و حرام سے مکس ہے، فوت ہونے والے کی ملکیت کچھ بینک سے ہے، کچھ وراثت سے ملی ہے، کچھ حلال میں سے ہے، پھر آپ اس باریک بینی کی طرفجا سکتے ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ