ہم نے بچپن بہت سخت غربت میں گذارا ہے ، جس کے لیے اگر کوئی اصطلاح بنانا چاہے ، تو اسے “سیاہ غربت” کانام دے سکتاہے ، والدہ محترمہ چونکہ ان پڑھ تھیں، اس لیے وہ اپنے بچوں کو ن پڑھ نہیں دیکھ سکتی تھیں۔  وہ باربار اس بات کا اظھاربھی کرتی تھیں کہ جاہل  میری سارے خاندان میں کافی ہیں۔ کسی دوسرے کو جاہل رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔  اس لیے اس نے تمام بچوں کو سکول داخل کرایا تھا۔

مگر مسئلہ یہ تھا کہ ہمارے پاس  کتابیں خریدنے کےلیے رقم نہیں تھی، اورنہ قلم ، پینسل ، سلیٹ ، اور تختی کےلیے کوئی پیسہ تھا۔ مگر وہ بضدتھیں کہ تمھیں پڑھنا پڑے گا۔  کتابوں کا تو انھوں نے یہ طریقہ بنایا کہ جو بچہ ادنی میں وہ داخل کرانا چاہتی تھیں۔  اس کے لیے وہ ادنی سے پاس ہونے والے طلبہ کی کتابیں  مانگتی تھی۔

مجھے یاد ہے کہ میں نے پہلی کلاس سے لیکر دسویں جماعت تک  محترم برادر جاوید احمد کی کتابوں سے فائدہ اٹھایا۔ والدہ صاحبہ سردیوں کی چھٹیوں سے پہلے ہی اس کام کا انتظام ہمارے لیے کرلیتی تھیں۔ مگر زیادہ مسئلہ ، سلیٹ ، قلم اور پینسل وغیرہ کا تھا، جو ہر کلاس میں مستعمل ہوتے تھے  میں نے بارھا والدہ صاحبہ کو دیکھا کہ وہ ریڈیو کے سیل کے درمیان جو لِکّی  ہوتی تھی وہ کسی پرانے سیل کو توڑ کر نکال لاتی تھی ،اور فرماتیں بیٹا اسے پینسل کی جگہ استعمال کرو ،خط دونوں کاایک جیساہے۔

باقی تو اس کی بات کو مان جاتے تھے۔ مگرمیں اس پرشور مچاتا کہ پینسل کی لکیر باریک ہوتی ہے  اور  لِکّی کی لیکر موٹی ہوتی ہے اوربدنما لگتی ہے۔  ہمارے دور کے ماسٹرز بھی عجیب الخلقت قسم کے ہوتے تھے کہ وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کون غریب ہے اورکون امیرہے بس موٹی لیکر تختی پردیکھ کر کھڑنے ہونے کاکہتے اور پھر مارمار کرکلاس سے نکال دیتے کہ جاؤ پینسل لیکر آجاو ، اس وقت کلاس سے نکل کر دروازے کے پاس کھڑے یوجاتے اورزبانِ حال شبلی والی بات کہتے جاتے کہ “جو ہجرت کرکے بھی جائیں تو شبلی اب کھاں جائیں” بہرحال ایک دو پیریڈ کے بعد پھر کلاس میں داخل ہونے کی اجازت مل جاتی اورھم پھولے نہ سماتے کہ آج کادن بھی خیرسے گذر گیا۔

والدہ چونکہ تعلیم سے ناواقف تھیں۔ اس لیے ہر باب میں وہ خود قوانین بناتی تھیں، اوراس باب میں اللہ تعالی نے اسے زرخیز ذہن سے نوازا تھا۔  ہسپتال اور سکول متصل تھے۔  ہمارے گھر سے اس کا فاصلہ تقریبا ایک میل کابنتا تھا۔ اسے خیال آیا کہ جب یہ بچہ سکول جائے گا۔  تو کسی حادثہ کے واقع ھونے کابھی اندیشہ ھوسکتاتھا ممکن ہے کوئی آدمی اس بچے کوورغلائے تو اس کا اس نے یہ بندوست کیا کہ ہمارے گھر کے ساتھ ھمارے رشتہ دارحاجی علی محمد مرحوم کاگھر تھا۔ وہ اسی سکول میں ٹیچرتھے۔ میری والدہ سے عمر میں بہت کم تھے۔  والدہ مجھے ان کے پاس لے گئی اوران سے کہا کہ اس بچے کو آپ اپنی نگرانی میں اس طرف سے لے جائیں گے اور اس طرف سے بھی لے آئیں گے۔

استادِ مرحوم کو اللہ غریقِ رحمت فرمائے کہ انہوں سالہاسال اس ڈیوٹی کوبہت خوش اسلوبی سے نبھایا۔ اس صیانت و حفاظت کے باوجود والدہ نے بچوں کی ایک اور طریقے سے بھی ان کومحفوظ رکھنے کی تدبیر کی۔  وہ یہ کہ اس نے پہلے میری بڑی بہن سے پوچھا تمھیں گھڑی کا وقت معلوم کرنا آتاہے؟ اس نے کھا: ہاں، پھر اس کو جمعے کے روز کھا جاؤ فلان باجی کی گھڑی لیکر آجاؤ اور جب ڈیڑھ بجے ہوجائیں  تو مجھے بتادینا وہ گئی اورگھڑی لے آئی اور پھر اسے دیکھتی رہی تا آن کہ ڈیڑھ  بج گیا۔

اس نے والدہ کو بتایا۔  والدہ نے اس وقت کے دیوار کے سائے کے مطابق دوسرے دیوار پر لیکر کھینچ لی۔ ھمیں کچھ پتہ نہیں چلا کہ کیا ہورہاہے؟ اس کے بعد بہن سے جب نصف گھنٹہ اور گزرجائے پھر بتادینا۔ بہن نے وہ بتایا تو والدہ نے دوسری لیکر کھینچ لی۔  اب ہمیں کچھ شک ہوا کہ ممکن ہے یہ سب کچھ ہماری جکڑبندی کےلیے ہورہا ہو۔

ہماراندیشہ بالکل درست ثابت ہوا کہ دوسری لیکر کھینچنے کے بعد وہ کہنے لگی کہ مجھے فلان باجی نے بتایا کہ ہمارے گھر سے ہسپتال کا فاصلہ آدھا گھنٹہ ہے۔  خبردار جو ایک منٹ کی بھی تاخیر کی گھر بروقت پہنچنا لازم ہے  مگر ہمیشہ دیرکردیتا ہوں میں طبیعت رکھنے والا لڑکا کب تک اور کس قدر پابندی کرسکتاتھا ؟ لھذا مارکٹائی کا سلسلہ بھی زور و شور سے شروع ہوا۔  اس وقت ہمارے گاؤں کے بازار میں چند ہی دکانیں تھی۔ مگر ھم کھڑکی سے ان مٹھائیوں اورٹافیوں کا نظارہ تو کر سکتے تھے اورکرتے تھے۔ پھر گھر میں سالن تو دور کی بات یے۔ خشک پیاز کاملنا بھی ہفتوں میں نصیب ہوتاتھا۔

واصل واسطی