سوال
ہماری والدہ محترمہ کا انتقال 2020ء میں ہوا تھا۔ ان کی جائیداد سے ہونے والی آمدنی (کرایہ وغیرہ) ورثاء میں تقسیم ہوتی رہی ہے۔ اب کچھ بیٹوں اور بیٹیوں کا کہنا ہے کہ جائیداد فروخت کر کے قرض ادا کیا جائے۔
ہماری والدہ کے ذمے تقریباً 14-15 لاکھ روپے کا قرض ہے، جو زیادہ تر ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کا ہی ہے۔ قرض کی تفصیل کچھ یوں ہے:
ایک بیٹے کا قرض: 1,10,000 روپے، جو ایک بہن کی شادی اور دیگر ضروری اخراجات کے لیے دیا گیا تھا۔
ایک بیٹی کا قرض: 3 تولہ سونا، جو واپسی کی نیت سے لیا گیا تھا۔
داماد کا قرض: 1,00,000 روپے، جو چھوٹی بیٹی کے شوہر سے ادھار لیا گیا تھا۔
دیگر بیٹوں اور بیٹیوں کا قرض: کچھ نے اپنی والدہ کو 1,1 تولہ سونا دیا تھا، جو انہوں نے اجازت لے کر استعمال کیا اور وعدہ کیا کہ واپس کریں گی۔
اضافی وضاحت:
یہ قرض مختلف ضروریات کے تحت لیا گیا تھا۔ 1,10,000 روپے میں سے کچھ رقم بیٹی کی شادی کے لیے استعمال ہوئی، جو ایک بیٹے نے دی تھی، جبکہ کچھ رقم دیگر گھریلو ضروری اخراجات میں استعمال ہوئی۔
اسی طرح، جو تین تولہ سونا، ایک تولہ سونا، اور ایک لاکھ روپے داماد کا تھا، وہ دراصل والدہ مرحومہ کی زندگی میں کیے گئے بعض اثاثوں کی خریداری سے متعلق تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ایک پلاٹ، ایک دکان سیل کرگئی تھی اور ایک مکان خریدا تھا، جن کی مکمل ادائیگیاں ابھی باقی تھیں۔ بعد میں، ان بقایا ادائیگیوں کے باعث ہمیں چھے6/ لاکھ روپے کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔
ہمارے والد (مرحومہ کے شوہر) کا انتقال 2006 میں ہو گیا تھا۔ ان کی کچھ جائیدادیں شہر سے باہر تھیں، جن کا کرایہ آتا تھا اور وہ مشترکہ گھریلو اخراجات میں استعمال ہوتا رہا۔
والدہ نے اپنی زندگی میں خود ہی گھر کے اخراجات اٹھائے اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا۔
انہوں نے کسی عالم سے فتویٰ لیا تھا کہ اگر وہ زکاة سے بچنے کے لیے سونا اپنی اولاد کے نام کر دیں، تو زکاة واجب نہیں ہوگی۔ چنانچہ انہوں نے تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو 1,1 تولہ سونا بطور گفٹ دے دیا تھا۔ بعد میں، جب مالی ضرورت پیش آئی، تو انہوں نے چھوٹے بیٹوں سے بھی کہا کہ وہ ان کا سونا استعمال کر رہی ہیں اور بعد میں واپس کریں گی۔
اب سوال یہ ہے کہ وراثت کی تقسیم کے دوران کیا ہم یہ قرض بھی تقسیم میں شامل کر سکتے ہیں؟ یعنی ہر وارث کے حصے میں قرض کا بوجھ ڈال کر اسے اس کا اپنا حصہ شمار کر لیا جائے؟ یا پھر شریعت کے مطابق پہلے قرض ادا کرنا ضروری ہوگا اور اس کے بعد ہی وراثت تقسیم ہو سکتی ہے؟کچھ راضی ہیں اور کچھ نہیں ؟؟
براہ کرم، قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ شرعی حکم کیا ہوگا؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
شریعتِ اسلامیہ میں وراثت کی تقسیم وغیرہ کے حوالے سے چار مراحل ہوتے ہیں:
- تجہیز و تکفین: سب سے پہلے میت کے ترکے سے اس کے کفن دفن کے اخراجات نکالے جائیں۔
- قرض کی ادائیگی: میت کے ذمے جو قرض ہو، وہ ادا کیا جائے، چاہے وہ اللہ کے حقوق (مثلاً زکوٰۃ، کفارہ، نذر) سے متعلق ہو یا بندوں کا حق(قرض) ہو۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی ( ایسے ) شخص کی میت لائی جاتی جس پر قرض ہوتا تو آپ پوچھتے :
“هَلْ تَرَكَ لِدَيْنِهِ مِنْ قَضَاءٍ؟ فَإِنْ حُدِّثَ أَنَّهُ تَرَكَ وَفَاءً، صَلَّى عَلَيْهِ، وَإِلَّا، قَالَ: صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ”. [صحیح مسلم: 1619]
’’کیا اس نے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ چھوڑا ہے ؟ اگر بتایا جاتا کہ اس نے قرض چکانے کے بقدر مال چھوڑا ہے تو آپ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیتے ورنہ فرماتے :’’ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو‘‘۔
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ “. [سنن الترمذی: 1078]
’’مومن کی جان اس کے قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ہے جب تک کہ اس کی ادائیگی نہ ہو جائے‘‘۔
- وصیت کا نفاذ: اگر مرنے والے نے کوئی شرعی وصیت کی ہو، تو ایک تہائی مال سے اسے پورا کیا جائے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’(ترکہ میں سے) جو وصیت کی گئی ہو، اسے پورا کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد وراثت تقسیم ہوگی‘‘۔ [النساء: 11]
وصیت صرف ایک تہائی مال کی نافذ ہوگی، اس سے زیادہ کی وصیت جائز نہیں ہے۔ [صحیح البخاری: 2744]
- وراثت کی تقسیم:ان تمام مراحل کے بعد باقی مال ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔ [النساء: 11]
موجودہ صورتِ حال میں شرعی حل:
سب سے پہلےجو قرض میت کے ذمے واجب الادا ہے، اسے ادا کیا جائے، خواہ وہ کسی غیر کا ہو یا اولاد کا۔ اس کے بعد جو مال بچ جائے، وہ ورثاء میں انکے شرعی حصص کے مطابق تقسیم کردیاجائے۔
وراثت کی تقسیم سے پہلے تمام قرضوں کی ادائیگی ضروری ہے۔ قرض کی ادائیگی کے بغیر وراثت تقسیم کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔
جہاں تک یہ بات ہے کہ وراثت تقسیم کرتے ہوئے قرض وغیرہ کو اس میں منہا کر لیا جائے تو یہ لین دین کی آسانی کو سامنے رکھتے ہوئے آپسی صوابدید اور مصالحت سے جیسے ممکن ہے، کر لیا جائے، اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن یہ صورت بالکل درست نہیں ہو گی سب ورثاء وراثت تقسیم کرکے بیٹھ جائیں اور قرض وہیں کا وہیں معلق رہ جائے۔
اوپر سوال میں زکاۃ سے بچنے کے حوالے سے ایک حیلے کا ذکر ہے کہ سونے اور زیورات کو بچیوں کے نام کر دیا جاتا ہے، یہ درست نہیں ہے، شادی سے پہلے پہلے بچیوں کو جو کچھ بھی دیا جاتا ہے وہ والدین کی ملکیت میں ہی ہوتا ہے، لہذا اسے ایک شخص کی ملکیت سمجھتے ہوئے زکاۃ ادا کرنا ضروری ہے، ہاں اگر بچیوں کی شادیاں کر دی جائیں اور انہیں کوئی چیز بطور ہدیہ وغیرہ مستقل دے دی جائے تو پھر والدین اس کی زکاۃ ادا نہیں کریں گے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ