سوال (4318)
ایک شخص کے پاس والدہ رہتی تھی، اس کے ساتھ دیگر بہن بھائی بھی تھے، وہ شخص والدہ کی دیکھ بھال بھی کرتا تھا، جب اس شخص نے دکان خریدنے کا ارادہ کیا تھا تو والدہ نے دو لاکھ روپے دیے تھے، اس کے بعد والدہ کی بیماری یا دیگر اخراجات وہ اٹھاتا رہا، اس کے بعد والدہ فوت ہوگئی ہے، اب بہن بھائی کہہ رہے ہیں کہ اس دو لاکھ میں سے بھی ہمیں حصہ دو، کیونکہ وہ ہمارہ والدہ تھی۔ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔
جواب
اگر والدہ نے علاج کے مد میں دیے ہیں، پھر تو وہ دو لاکھ علاج میں لگ گئے ہیں، پھر تو بات ختم ہوگئی ہے، اگر وہ اخراجات الگ سے تھے، والدہ نے اس کو دو لاکھ الگ سے دیے ہیں، پھر اس کو ہدیہ کہیں یا خدمت کا صلہ کہیں، تو والدہ کو اس قسم کی اجازت نہیں ہے، ایک بچے کو دے، دیگر کو چھوڑ دے، پھر بہتر یہ ہے کہ اس کو ترکے میں شمار کریں، ساری جائیداد میں اس کو ملا کر تقسیم کردیں، باقی اگر دوسرے بہن بھائی دل بڑا کر کے شفقت کا مظاہرہ کریں کہ اس نے خدمت کی ہے، اس کو دے دو، لیکن اگر وہ راضی نہیں ہیں تو اس کو ترکے میں شامل کریں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ