سوال (1385)

والد کے بعد میراث کی تقسیم شرعی لحاظ سے کی گئی ہے ، جس میں والدہ کو آٹھواں حصہ آیا ہے ، کیا اب سوال یہ ہے کہ کیا والدہ اس کو اپنی مرضی تقسیم کر سکتی ہیں ، جیسے اس حصے کو بیٹے کو دے دیں یا سب اولاد کو دے دے یا گھر کے کسی کام میں لگا دے ، کیا اس کا والدہ کو اختیار ہے ، ایسا کرنے سے کوئی شرعی مسئلہ تو نہیں ہے ؟

جواب

والد صاحب ہوں یا والدہ ہوں ، کسی ایک بچے کو دے دینا ، باقیوں کومحروم کردینا ، کسی کو دینا یا کسی کو نہ دینا یہ جائز نہیں ہے ، یہ حکم سب کے لیے ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“فَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ”.

[صحيح البخاري 3/ 158رقم 2587]
اللہ تعالیٰ سے ڈرو اولاد کے درمیان انصاف کرو ۔
البتہ والدہ کو جو حصہ ملا ہے ، وہ اس حصے کو مکان میں لگا دیتی ہے ، اس کی اجازت ہے ، کیونکہ وہ مالک ہے ، جس مکان میں رہ رہی ہیں ، اس میں کام کروا رہی ہیں ، یہ ایک الگ بات ہے ، لیکن جب اولاد کو دیں تو سب کو دینا پڑے گا ، باقی ایک صورت اور ہوسکتی ہے کہ سب سے پوچھیں کوئی نہیں لے رہا ہے ، سب متفق ہوتے ہیں کہ کوئی بھائی یا بہن کمزور ہے ، والدہ اس کو دے دیں تو پھر ٹھیک ہے ، لیکن جب اختلافات ہوں تو ناجائز ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ