سوال

مفتی حضرات اور علمائےکرام سے ایک اہم مسئلے میں شرعی راہنمائی درکار ہے۔

ہمارے بہنوئی حاجی غلام رسول رحمہ اللہ واربرٹن کے معززین میں سے تھے ۔ ان کی پہلی بیوی فوت ہو گئی، جس سے ان کی دو بیٹیاں ہیں اور نرینہ اولاد نہیں تھی ۔ حاجی صاحب نے اپنی ساری جمع پونجی نقدی ، سونا وغیرہ اپنی بیٹیوں میں تقسیم کر دیا  اور انہیں لاہور اور گوجرانوالہ میں مکانات بھی خریدنے میں مدد کی ۔ بعد ازاں حاجی صاحب نے دوسری شادی کر لی ، اس دوسری بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی ۔ واربرٹن سٹی میں حاجی صاحب کی ملکیتی جگہ 8 مرلے 2 سرساہی تھی جو وفاقی حکومت کی طرف سے الاٹی پلاٹ ہے ۔ اس جگہ پر حاجی صاحب نے اپنی دوسری بیوی کی وراثت میں سے جو ہماری بہن کو والدین کی وارثت میں سے نقدی صورت میں ملی تھی ، ان پیسوں سے بالائی منزل پر مکان اور نیچے چار دکانیں تعمیر کیں ۔ حاجی صاحب نے آج سے 13 سال قبل اپنی زندگی ہی میں یہ مکان ، دکانیں زمین سمیت اپنی دوسری بیگم کو قانونی طور پر ہدیہ کر دیں ۔ علاوہ ازیں اس مکان کے عقب میں متصل 5 مرلے جگہ بھی حاجی صاحب  کی ملکیت تھی ۔ اس پر انہوں نے گودام تعمیر کیا اور اسے بھی اپنی بیوی کو ہدیہ کر دیا ۔ ہدیہ کے تین سال بعد حاجی صاحب نے اپنی اہلیہ کی رضامندی سے گودام والی جگہ میں سے نصف یعنی اڑھائی مرلے اپنی دو بیٹیوں کو رجسٹری کروا دی ۔

حاجی صاحب جو روشنی ہسپتال واربرٹن کے بانی سرپرست تھے، انہوں نے اپنی بیوی کو وصیت کی کہ تم میری وفات کے بعد یہ مکان ، 4 دکانیں اور اپنے حصے کا گودام روشنی ہسپتال کو وقف کر دینا ۔ حاجی صاحب 2024ء کے شروع میں فوت ہوگئے ۔ ان کی اہلیہ نے وصیت کے مطابق اپنی ملکیتی جائیداد روشنی ٹرسٹ کے نام لگوانے کے لیے مکمل پیپر تیار کروا لیے کہ انہیں بھی مہلت نہ ملی اور وہ بھی گذشتہ ماہ فوت ہو گئیں ۔ قانونی طور پر یہ جائیداد حاجی صاحب کی دوسری بیوی کی حقیقی  بہن اور دو بھائیوں میں بطور وراثت منتقل ہوئی ۔ ورثاء نے نہایت امانت داری کے ساتھ وصیت پر عمل کرتے ہوئے مکمل قانونی چارہ جوئی کے بعد یہ ساری جائیداد روشنی ٹرسٹ کے نام وقف کروا دی جس کی فرد بھی جاری ہو گئی ہے ۔

اب حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ 15 ستمبر 2024ء کو حاجی صاحب کی اہلیہ کی وفات ہی کے دن سے حاجی صاحب کی دونوں بیٹیاں ، چھوٹا داماد سعید اور نواسہ احمد خود کو اس مکان کے مالک باور کراتے ہوئے قابض ہیں جبکہ قانونی طور پر وہ مالک نہیں ہیں۔

کیا شرعی اعتبار سے حاجی صاحب کی دونوں بیٹیوں اور ان کی اولاد کا اس مذکورہ جائیداد میں کوئی حصہ بنتا ہے؟

سائل:خالد محمود شیخ  (برادر نسبتی حاجی غلام رسول رحمہ اللہ)

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

غلام رسول صاحب نے اپنی دکانیں اور مکان بطور ہبہ و تحفہ اپنی بیوی کے نام کر دیا شرعی لحاظ سے یہ درست ہے، کیونکہ یہ مرض الموت کے وقت کی بات نہیں ہے کہ ان کی نیت پہ یہ شک کیا جائے کہ وہ دیگر ورثاء کو میراث سے محروم کرنے کی نیت سے ایسا کر رہے ہیں، کیونکہ یہ عمل ان کی وفات سے 13 سال قبل پیش آیا ہے۔ تو اس میں کسی قسم کے حرج والی بات نہیں ہے۔

حاجی غلام رسول نے باقی پانچ مرلے کے پلاٹ میں سے اڑھائی مرلے جو اپنے بیٹیوں کے نام کر دیا تھا ان کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ کیونکہ انہوں نے وہ پلاٹ بھی اپنی بیوی کو ہبہ کردیا تھا، لیکن اس معاملے میں بھی اگر بیوی راضی تھی اور ایسا ہو چکا ہے تو یہ حکم بھی نافذ رہے گا۔

باقی حاجی غلام رسول کا یہ کہنا کہ میری وفات کے بعد مکان اور دکانیں وغیرہ روشنی ہسپتال کے نام وقف کردینا یہ انکی طرف سے ایک درخواست تھی یعنی بیوی سے انہوں نے درخواست کی کہ آپ ایسا کردیجیے گا نہ کہ یہ حاجی غلام رسول کی طرف سے کوئی حکم یا وصیت تھی، کیونکہ یہ دکانیں، زمین اور مکان وغیرہ تو وہ اپنی بیوی کو ہبہ کرچکے تھے اور اب یہ انکی ملکیت ہی نہیں تھے۔

لیکن بیوی نے ان کی درخواست پر عمل کرتے ہوئے یہ زمین وقف کر دی اور پھر اس کی بھی وفات ہو گئی، لہذا اب سارا معاملہ جیسے ہوا ہے، درست ہے، اسی کے مطابق ہی چلے گا یعنی بیوی کے نام جائیداد تھی، پھر بیوی کے ورثاء کی طرف منتقل ہو گئی اور یہ سارا مال ان کے پاس چلا گیا، اور  انہوں نے روشنی ہسپتال کے نام کر دیا ہے۔ تو شرعی  اعتبار سے یہ سارا معاملہ درست ہے۔

لہذا غلام رسول صاحب کی بیٹیوں، داماد یا نواسے کا یہ طرز عمل کے ان جگہوں پر انہوں نے قبضہ کیا ہوا ہے، یہ شرعا ناجائز اور  غیر درست ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ