سوال
ہم دبئی میں ایک 13 منزلہ عمارت تعمیر کر رہے ہیں۔ ایک سرمایہ کار ہم سے ایک مکمل فلور (جس میں 9–10 اپارٹمنٹس شامل ہیں) خریدنا چاہتا ہے۔ ہم نے اس سے فی مربع فٹ 900 درہم کے حساب سے بیچنے پر اتفاق کیا ہے، اور وہ مکمل قیمت فوری ادا کرنے پر رضامند ہے۔
اب وہ سرمایہ کار ایک شرط رکھ رہا ہے:
’جب آپ یہ فلور ہمیں بیچ دیں گے (اور ہم قیمت ادا کر دیں گے)، تو آپ اُسی وقت یا جلد ہی ہمارے ساتھ دوسرا معاہدہ کریں کہ آپ ایک سال بعد (یا عمارت مکمل ہونے پر) یہی فلور 1200 درہم فی مربع فٹ پر ہم سے واپس خرید لیں گے۔
یعنی یہ دو الگ الگ معاہدے ہوں گے:
1.پہلا معاہدہ: ہمارا اُسے فلور فروخت کرنا 900 درہم فی مربع فٹ پر، جس میں وہ مکمل ادائیگی فوری کرے گا۔
2.دوسرا معاہدہ: ہم وہی فلور ایک سال بعد یا عمارت مکمل ہونے پر اُس سے 1200 درہم فی مربع فٹ پر واپس خریدیں گے، اور مکمل رقم ایک قسط میں (One Installment) ادا کریں گے۔
وہ یہ سب اس لیے چاہتا ہے کہ اگر وہ خود مارکیٹ میں 9–10 اپارٹمنٹس الگ الگ بیچے گا، تو اسے قسطوں میں رقم ملے گی، اور خریداروں سے رقم جمع کرنے، رجسٹری کروانے، اور فالو اپ جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
وہ ان مسائل سے بچنے کے لیے چاہتا ہے کہ ہم اُس سے مکمل فلور واپس خرید لیں تاکہ وہ فوری طور پر مکمل ادائیگی پا سکے۔
جب ہم اس سرمایہ کار کے ساتھ اس ڈیل پر بات چیت کر رہے تھے، تو ہم نے اسے واضح طور پر بتایا کہ ہم آپ سے فی مربع فٹ 900 درہم کے حساب سے یہ فلور ابھی بیچ رہے ہیں، اور ایک سال بعد یا بلڈنگ مکمل ہونے کے وقت مارکیٹ ریٹ ممکنہ طور پر 1200 سے بھی زائد ہو سکتا ہے — مثلاً 1300 یا 1400 درہم فی مربع فٹ تک۔
اس پر سرمایہ کار نے ہمیں صاف الفاظ میں کہا کہ:
“آپ میرے ساتھ 1200 درہم فی مربع فٹ فکس کر لیں، ایک سال بعد آپ مجھ سے یہ فلور واپس خرید لیں۔ اس کے بعد آپ چاہیں تو اسے مختلف کلائنٹس کو بیچ کر جتنا نفع حاصل کریں، وہ آپ کا ہو گا، مجھے اس نفع پر کوئی اعتراض نہیں۔ مجھے صرف اتنا چاہیے کہ آپ مجھے 1200 درہم فی مربع فٹ دیں۔”
سوال:
کیا اس قسم کی دو الگ الگ ڈیل، جن میں ایک “Buy-Back” کا وعدہ شامل ہو (جس میں ہم ایک مقررہ قیمت پر ایک سال بعد فلور خریدیں گے)، شرعی طور پر جائز ہے؟
کیا یہ معاملہ سود (ربا)، بیع العِینہ، یا مشروط بیع کے زمرے میں آتا ہے؟
کیا اس طرح buy-back کی شرط کے ساتھ معاہدہ کرنا جائز ہے، جب کہ سرمایہ کار کی نیت صرف یہ ہو کہ وہ مارکیٹ کے مسائل سے بچنا چاہتا ہے اور نفع کمانا چاہتا ہے، اور وہ فریقِ ثانی کو نفع کمانے کی بھی اجازت دے رہا ہو؟
ہم چاہتے ہیں کہ اس معاملے کی شرعی حیثیت واضح فرما دیں تاکہ ہم اسلامی اصولوں کے مطابق عمل کر سکیں۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
مذکورہ صورت میں پہلا معاہدہ اگر غیر مشروط ہو تو وہ فی نفسہ درست ہے۔
یعنی اگر سرمایہ کار خالصتاً خریداری کر رہا ہو، اور اس پر کوئی ایسی شرط نہ لگائے کہ آپ بعد میں یہی چیز واپس خریدیں گے، تو یہ معاہدہ صحیح اور جائز ہوگا۔ کیونکہ یہ ایک عام بیع (خرید و فروخت) ہے جس میں بیچنے والے کو قیمت اور خریدار کو ملکیت حاصل ہو رہی ہے۔
لیکن اگر یہ معاہدہ اس شرط کے ساتھ ہو کہ آپ ایک سال بعد یا عمارت مکمل ہونے پر وہی فلور 300 درہم فی مربع فٹ کے حساب سے زیادہ دے کر واپس خریدیں گے، تو پھر اس شرط کی وجہ سے یہ معاملہ فاسد اور ناجائز ہوجائے گا۔
- کیونکہ جب کوئی شخص کسی کو رقم دیتا ہے اور اس پر زائد رقم واپس لیتا ہے، تو یہ سود کہلاتا ہے، اس لیے یہ سود (ربا) کی ہی عملی صورت ہے، خواہ اس کو خرید و فروخت کا نام ہی کیوں نہ دے دیا جائے۔
یہاں سرمایہ کار 900 درہم فی مربع فٹ دے کر، ایک سال بعد 1200 درہم فی مربع فٹ وصول کرنا چاہتا ہے، جو کہ 300 درہم فی مربع فٹ منافع بن رہا ہے اور یہ نفع کسی تجارت کے سبب نہیں بلکہ صرف انویسٹمنٹ اور وقت کی وجہ سے ہے۔
اگرچہ اس کا نام بیع رکھا گیا ہے، لیکن حقیقت میں یہ سود ہی کے زمرے میں آئے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
“وَاَحَلَّ اللّٰهُ الۡبَيۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا”. [البقرۃ: 275]
’’اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے‘‘۔
- اور یہ معاملہ اس وجہ سے بھی ناجائز ہے کیونکہ اس میں “بیعتین فی بیعة” (ایک بیع میں دو بیع) والی صورت ہے، جو کہ شرعا ممنوع ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ”. [سنن الترمذی: 1231]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا‘‘۔
یعنی ایک معاملے میں دو بیع اور معاہدے نہ ہوں، جبکہ یہاں صورت حال یہ ہے کہ ایک بیع اس شرط کے ساتھ کی جا رہی ہے کہ دوسری بیع (واپس خریدنے کا وعدہ) بھی لازمی ہوگی۔ یہ شریعت کی رو سے ممنوع اور حرام ہے۔
لہٰذا اگر سرمایہ کار غیر مشروط طور پر فلور خریدتا ہے، اور مکمل قیمت ادا کرتا ہے، تو یہ بیع اور معاہدہ درست ہوگا اور بعد میں اگر فریقین باہمی رضامندی سے حالات کے مطابق کوئی نیا معاہدہ یا بیع کرلیتے ہیں، تو وہ بھی درست ہوگا۔
لیکن اگر خریداری کی شرط یہ ہو کہ بیچنے والا کسی مخصوص مدت جیسے ایک سال بعد وہی چیز خریدار سے ایک مخصوص قیمت پر واپس لے گا، تو یہ معاملہ دوسری بیع کیساتھ مشروط بیع اور سود کی عملی صورت ہونے کی وجہ سے شرعا باطل، ناجائز اور حرام ہوگا۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ