سوال (5534)
اگر کوئی کام عام طور پر پورے معاشرے میں پچاس (50) روپے کا ہوتا ہے، لیکن ایک شخص میری واقفیت اور تعلق کی وجہ سے وہی کام مجھے چالیس (40) روپے میں کر دیتا ہے، تو کیا اس رعایت کی بدولت بچنے والے دس (10) روپے کو میں اپنے پاس رکھ سکتا ہوں؟ وہ شخص مجھ سے بھی کام کرواتا ہے مجھے بھی اس کے لیے رعایت کرنا پڑتی ہے کیا یہ ٹھیک ہے. بیِّنوا. بارک اللہ فیکم
جواب
دیکھیں پیارے بھائی یہاں آپ کے سوال میں دو احتمال ہیں۔
پہلا یہ کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ مجھے کوئی چیز چالیس میں ملتی ہے اور مارکیٹ میں وہ پچاس کی ہے تو کیا میں پچاس کی بیچ سکتا ہوں تو اس میں کیا حرج ہو سکتی ہے آپ اپنی یز کو جتنے کا مرضی بیچیں،
دوسرا احتمال یہ ہے کہ آپ کو کسی نے کوئی چیز خریدنے کا وکیل بنایا ہے تو کیا وہاں اسکو آپ پچاس یعنی مارکیٹ قیمت پہ بیچ سکتے ہیں۔
تو اسکا جواب یہ ہے کہ اگر اس نے آپ کو یہ کہ کر وکیل بنایا ہے کہ آپ کا تعلق ہے اور آپ قیمت کم کروا کر مجھے خرید کر دے سکتے ہیں اور آپ بھی اسکو کہتے ہیں کہ میں مارکیٹ سے کم خرید کر دوں گا تو پھر آپ کو اسکو مارکیٹ سے کم ہی خرید کر دینا ہو گا ورنہ دھوکا ہو گا۔
ہاں اگر وہ آپ کو ویسے ہی وکیل بناتا ہے کہ میں نے یہ چیز خریدنی ہے مجھے یہ مارکیٹ ریٹ پہ خرید دو اور آپ اس وقت اپنے کسی تعلق کی وجہ سے (کہ جسکو آپ بھی کچھ چھوڑتے ہیں) اسکی چیز مارکیٹ سے بھی کم قیمت پہ خرید لیتے ہیں تو آپ اسکو مارکیٹ قیمت پہ بیچ سکتے ہیں اس میں حرج نہیں ہو گی۔ ان شاللہ
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ
اگر کوئی شخص اپنی مرضی اور خوشی سے تعلقات یا واقفیت کی بنیاد پر آپ کو رعایت دے دیتا ہے، تو وہ رعایت شرعاً جائز ہے۔ یہ اس کی طرف سے ایک طرح کا احسان اور تخفیف ہے، جو وہ اپنی خوشنودی سے کرتا ہے۔
لہٰذا جو رقم (آپ کی مثال میں 10 روپے) بچی ہے وہ بالکل حلال اور آپ کی ملکیت ہے۔
اگر وہ شخص آپ سے بھی کام کرواتا ہے اور آپ بھی اسی طرح رعایت کر دیتے ہیں، تو یہ بھی درست ہے، کیونکہ یہ باہمی تعاون اور لین دین کی بنیاد پر ہے۔
نہ تو یہ سود ہے،نہ ہی ناجائز رشوت ہے،بلکہ محض ایک دوسرے کو تعلق یا دوستی کی بنیاد پر سہولت دینا ہے۔
اگر رعایت اس بنیاد پر دی جائے کہ “کل مجھے بھی رعایت دینا ہو گی” اور دونوں طرف یہ شرط طے ہو تو اجتناب کیا جائے گا کہ یہ کیفیت بھی ممنوع نہیں لیکن اس کے بہت سے پہلو ممنوع حدود میں آ جاتے ہیں۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ