سوال

اگر مزدلفہ میں فجر کی نماز وقت سے آدھا گھنٹہ پہلے پڑھ کر حدود سے نکل جائیں تو کیا دم واجب ہو گا یا صدقہ دینا ہو گا یا کیا کرنا ہو گا؟ رہنمائی فرما دیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

مزدلفہ میں فجر کی نماز پڑھ کر دن روشن ہونے کے بعد طلوع آفتاب  سے  پہلے منیٰ کی طرف روانہ ہونا سنت ہے، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کمزوروں، بیماروں اور عورتوں کو آدھی رات کے بعد منیٰ کی طرف روانہ ہونے کی اجازت دی تھی۔

سالم رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

“وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُقَدِّمُ ضَعَفَةَ أَهْلِهِ ، فَيَقِفُونَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ بِالْمُزْدَلِفَةِ بِلَيْلٍ فَيَذْكُرُونَ اللَّهَ مَا بَدَا لَهُمْ، ثُمَّ يَرْجِعُونَ قَبْلَ أَنْ يَقِفَ الْإِمَامُ وَقَبْلَ أَنْ يَدْفَعَ، فَمِنْهُمْ مَنْ يَقْدَمُ مِنًى لِصَلَاةِ الْفَجْرِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَقْدَمُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَإِذَا قَدِمُوا رَمَوْا الْجَمْرَةَ, وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: أَرْخَصَ فِي أُولَئِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ”.[صحیح البخاری: 1676]

’’ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے گھر کے کمزوروں کو پہلے ہی بھیج دیا کرتے تھے اور وہ رات ہی میں مزدلفہ میں مشعر حرام کے پاس آ کر ٹھہرتے اور اپنی طاقت کے مطابق اللہ کا ذکر کرتے تھے ، پھر امام کے ٹھہرنے اور لوٹنے سے پہلے ہی ( منیٰ ) آ جاتے تھے ، بعض تو منیٰ فجر کی نماز کے وقت پہنچتے اور بعض اس کے بعد ، جب منیٰ پہنچتے تو کنکریاں مارتے اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سب لوگوں کے لیے یہ اجازت دی ہے ‘‘۔

اسی طرح ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

“اسْتَأْذَنَتْ سَوْدَةُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْمُزْدَلِفَةِ، تَدْفَعُ قَبْلَهُ، وَقَبْلَ حَطْمَةِ النَّاسِ، وَكَانَتِ امْرَأَةً ثَبِطَةً – فَأَذِنَ لَهَا”. [صحیح مسلم: 1290]

’’سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مزدلفہ کی رات (یعنی 10 ذوالحجہ کی فجر سے قبل) لوگوں کا رش پڑنے سے پہلے روانہ ہونے کی اجازت طلب کی، کیونکہ وہ بھاری جسم کی تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےانہیں اجازت دے دی‘‘۔

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عذر کی صورت میں مزدلفہ سے وقت سے پہلے روانگی جائز ہے، اور اس پر نہ دم واجب ہوتا ہے نہ صدقہ۔

البتہ صورتِ مسئولہ میں جو فجر کی نماز وقت سے پہلے پڑھی گئی ہے، وہ شرعاً صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ نماز کے صحیح ہونے کے لیے اسے وقت داخل ہونے کے بعد پڑھنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

“اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتۡ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ كِتٰبًا مَّوۡقُوۡتًا”. [النساء: 103]

’’بے شک نماز ایمان والوں پر ہمیشہ سے ایسا فرض ہے جس کا وقت مقرر کیا ہوا ہے‘‘۔

اس لیے فجر کی نماز کو دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔ باقی مزدلفہ سے وقت سے پہلے روانہ ہونا، اگر عذر کی وجہ سے تھا تو وہ جائز ہے۔

رسول اللہ ﷺ سے صحیح احادیث میں یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے سورج طلوع ہونے سے کچھ دیر پہلے مزدلفہ سے روانگی فرمائی، اور اس سے پہلے دعا کی:

“فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى أَسْفَرَ جِدًّا، فَدَفَعَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ”. [صحیح مسلم: 1218]

’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم (طلوع فجر کے بعد بھی مزدلفہ میں)ٹھہرے رہے حتی کہ اچھی طرح روشنی پھیل گئی ۔ پھر آپ سورج طلوع ہونے سے پہلے ( مزدلفہ سے منیٰ کی طرف ) روانہ ہوئے‘‘۔

لہذا افضل یہی ہے کہ فجر کے بعد سورج نکلنے کے قریب تک دعا میں مشغول رہا جائے، پھر سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے منیٰ کی طرف روانہ ہوا جائے۔ لیکن اگر کسی شرعی عذر کی وجہ سے وقت سے پہلے جانا پڑے تو جائز ہے اور اس پر کوئی دم یا صدقہ لازم نہیں آتا۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ