سوال (4740)

مظلوم شخص کا کسی ایسے شخص سے حلفیہ اقرار کا مطالبہ کرنا جو کہ اسکے معاملات، حقوق، وراثت میں اسکی نظر میں بعض شواہد کی روشنی میں حق تلفی کرنے والا، کروانے والا یا کسی بھی لحاظ سے حقوق نہ ادا کرنے والوں، وراثت غصب کرنے والوں کی سرپرستی کرنے والا ہو شرعا درست ہے، رہنمائی کی درخواست ہے۔

جواب

ہاں اگر وہ کہتا ہے کہ انھوں نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے، یہ اس ظلم کا حصہ ہیں، کبھی ڈائریکٹ تو کبھی ان ڈائریکٹ ہے، وہ اس الزام کو نہیں مانتا ہے تو پھر حلف اٹھا کر بری ہو جائے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

اس طرح کے سوالات کا عمومی جواب مسائل کھڑا کرتے ہیں، پھر ہمارے عامی لوگ اس طرح کے جوابات کو اپنے اپنے ماحول میں ایڈجسٹ کرکے استعمال کر رہے ہوتے ہیں، اس طرح کے معاملات میں عمومی جواب نہ دیا جائے، اگر اس طرح کا اشیو ہو تو اس پر بحث کی جائے تاکہ بہتر جواب دیا جائے، میں اپنے مقتدیوں کو یہ بتاتا ہوں کہ صحابہ کرام اس طرح کے فرضی سوال نہیں کیا کرتے گے، آپ نام بدل دیں، شہر بدل دیں، سوال آپ کا جنوئین ہونا چاہیے تو اس کے جواب دینے میں بھی آسانی ہوگی۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

ماشاءاللہ شیخ، آپ نے بجا فرمایا ہے، فرضی سوال نہیں ہونا چاہیے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ فرضی سوال کرنے والے کو کہتے تھے کہ اللہ کی لعنت ہو۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: یہ جینئن حقیقت پر مبنی ہے۔
کسی قسم کی فرضی بات/ سوال نہیں ہے۔
جواب: آپ کے سوال میں جو عمومی انداز ہے، اس کو خصوصی انداز میں تبدیل کردیں، میں ان شاءاللہ جواب لکھتا ہوں، کوشش کریں کہ سوال خصوصی انداز میں نام کے ساتھ کیا کریں، جی ہاں، مظلوم شخص کو شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حق کی وضاحت یا دفاع کے لیے، دوسرے فریق سے حلفیہ اقرار کا مطالبہ کرے — بشرطیکہ معقول گمان یا ظاہری شواہد ہوں۔ اگر مظلوم شخص کے پاس کچھ قرائن، شواہد یا معقول گمان موجود ہو کہ فلاں شخص نے حق تلفی کی ہے یا ظالموں کی سرپرستی کی ہے، تو وہ شریعت کی روشنی میں اس سے وضاحت یا قسم کا مطالبہ کرسکتا ہے۔

فإن أنكر وجب عليه اليمين،

اگر دعویٰ کیا جائے اور وہ شخص انکار کرے، تو اس پر قسم ہے۔
اور بہتر یہ ہے کہ یہ مطالبہ کسی عدالتی مجلس یا ثالثین (مصلحین) کے سامنے ہو تاکہ اس کا اثر اور وزن ہو۔ اور اس کا مقصد محض شرمندہ کرنا یا تذلیل نہ ہو اگر کوئی مظلوم شخص صرف دوسرے کو بدنام کرنے یا شرمندہ کرنے کے لیے قسم کا مطالبہ کرے، تو یہ نیت درست نہیں۔ البتہ اگر مقصد حق کا تعین اور ظلم کی وضاحت ہو، تو یہ جائز ہے۔ اور اگر مظلوم کو مکمل یقین ہو کہ سامنے والا جھوٹی قسم اٹھا لے گا، تو وہ دل سے اللہ پر چھوڑ دے؛ کیونکہ حدیث میں آیا ہے:

من اقتطع حق امرئ مسلم بيمينه فقد أوجب الله له النار، وحرم عليه الجنة”

(جو شخص جھوٹی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کا حق ہڑپ کرے، اللہ نے اس پر جہنم واجب کر دی اور جنت حرام کر دی)
واضح رہے کہ جس سے حلف کا تقاضا کیا جائے وہ اپنے حلف سے مکر جائے یا اس کے خلاف عمل کرے تو پھر اس حدیث پر عمل کیا جائے۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ