سوال (1277)
وضو کا مکمل طریقہ اس کا باقاعدہ حکم کب دیا گیا تھا؟ مطلب کہ کس
سن نبوی میں یا ہجری میں حکم دیا گیا ہے ؟سوال اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ نماز کا حکم تو معراج کی رات جو تقریباً 12 نبوی میں ہوئی تھی تب ہوا تھا اور وضو کا طریقہ سورۃ المائدہ میں آیا ہے وہ مدنی سورت ہے۔ (میرے علم کے مطابق) اس وجہ سے وضو کا حکم کب نازل ہوا تھا اس کی وضاحت مطلوب تھی؟
جواب
دفاع حدیث میں اہل علم نے جو کچھ لکھا ہے یا جمع کیا ہے، اس میں یہ بات آئی ہے کہ وضو کا طریقہ پہلے سے موجود تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر وضو کیا جاتا تھا، جبکہ سورۃ المائدہ مدنی ہے، مدینہ میں چونکہ حکم نازل ہوا تھا، یہ دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل حجت ہے، صحابہ کرام اس کے مطابق چلتے تھے، جیساکہ ابن ماجہ میں آتا ہے۔
سیدنا جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ فِتْيَانٌ حَزَاوِرَةٌ، فَتَعَلَّمْنَا الْإِيمَانَ قَبْلَ أَنْ نَتَعَلَّمَ الْقُرْآنَ، ثُمَّ تَعَلَّمْنَا الْقُرْآنَ فَازْدَدْنَا بِهِ إِيمَانًا.” [سنن ابن ماجه: 61]
«ہم نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے، اور ہم طاقتور نوجوان تھے، ہم نے قرآن سیکھنے سے پہلے ایمان کو سیکھا، پھر ہم نے قرآن سیکھا، تو اس سے ہمارا ایمان اور زیادہ (بڑھ) ہوگیا»
بس یہ ہے کہ پھر جو کچھ نازل ہوا سورۃ المائدۃ میں اس طریقے پر نہیں تھا، جس طریقے پر وہ کرتے تھے، پہلے پاؤں دھونا، کف(ہتھیلی) دھونا، کلی کرنے کا ذکر نہیں ہے، ناک میں پانی ڈالنے کا ذکر نہیں ہے، کان کا مسح نہیں ہے، تو صحابہ کرام قرآن کو صاحب قرآن سے سیکھتے تھے، اس لیے ان کو کوئی اشکال نہیں ہوا تھا، اور حکم پہلے سے ہی تھا عملی زندگی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے فرماتے تھے، اور لوگ بھی کرتے تھے، اس کے لیے کسی دلیل کی حاجت نہیں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود دلیل ہیں، اس لیے اللہ تعالٰی نے رسول کو دلیل اور حجت کہا ہے، جن انبیاء کو کتابیں نہیں ملتی تھیں، ان کا عمل تھا، وہ عمل نبی کے ساتھ تھا۔ جیسے وہ کرتے تھے ویسے انکے امتی کرتے تھے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سوال: اگر کسی شیخ کے پاس وضو کا مکمل طریقہ (بخاری و مسلم) کی احادیث والا ہے تو سینڈ کردیں۔
جواب: مسنون وضو کا طریقہ درج ذیل ہے:
1: وضوکے شروع میں ’’بسم اللہ‘‘ پڑھیں۔
نبی ﷺ کا ارشاد ہے:
’’لا وضوء لمن لم یذکر اسم الله علیه‘‘
جو شخص وضو (کے شروع) میں اللہ کا نام نہ لے اس کا وضو نہیں ہے۔
(سنن ابن ماجہ: 397 وسندہ حسن لذاتہ)
نبی ﷺ نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ: ’’وضو کرو، بسم اللہ‘‘ (سنن النسائی 1/ 61 ح 78 وسندہ صحیح، صحیح ابن خزیمہ 1/ 74 ح 144 وصحیح ابن حبان، الاحسان: 6510، دوسرا نسخہ 6544)
2 : وضو (پاک) پانی سے کریں۔ (دیکھئے سورۃ النسآء:43 وسورۃ المآئدۃ: 6)
تنبیہ: نبیذ، شربت، دودھ یا ان جیسے مشروبات سے وضو کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ پانی کے حکم میں نہیں ہیں اور نہ ان سے وضو کرنا ثابت ہے۔
3: ہر وضو کے ساتھ مسواک کریں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اگر مجھے میری امت کے لوگوں کی مشقت کا ڈر نہ ہوتا تو میں انھیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا۔‘‘
(بخاری: 887 ومسلم: 252)
رسول اللہ ﷺ نے رات کو اٹھ کر مسواک کی اور وضو کیا۔ (مسلم: 256)
4: پہلے اپنی ہتھیلیاں تین دفعہ دھوئیں۔ (دیکھئے صحیح بخاری: 159 و صحیح مسلم: 226)
5: پھر تین دفعہ کلی کریں اور ناک میں پانی ڈالیں۔ (البخاری: 159 ومسلم: 226)
تنبیہ: بہتر یہی ہے کہ ایک ہی چلو سے کلی کریں اور ناک میں پانی ڈالیں جیسا کہ صحیح بخاری (191) وصحیح مسلم (235) سے ثابت ہے۔ لیکن اگر کلی علیحدہ اور ناک میں پانی علیحدہ ڈالیں تو یہ بھی جائز ہے جیسا کہ محدث ابن ابی خیثمہ رحمہ اللہ کی کتاب ’’التاریخ الکبیر‘‘ سے ثابت ہے۔ (ص 588 ح 1410، وسندہ حسن لذاتہ)
6: پھر تین دفعہ اپنا چہرہ دھوئیں۔ (البخاری: 159 و مسلم: 226)
7: پھر تین دفعہ اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک (کہنیوں سمیت) دھوئیں۔
8: پھر (پورے) سر کا مسح کریں۔ (البخاری: 159 ومسلم: 226)
اپنے دونوں ہاتھوں سے مسح کریں۔ سر کے شروع سے ابتدا کر کے گردن کے پچھلے حصے تک لے جائیں اور وہاں سے واپس شروع والے حصے تک لے آئیں۔ (البخاری: 185 ومسلم:235)
سر کا مسح ایک بار کریں۔ (سنن ابی داود: 111 وسندہ صحیح)
تنبیہ: بعض روایات میں تین دفعہ سر کے مسح کا بھی ذکر آیا ہے۔ (دیکھئے سنن ابی داود: 107 وسندہ حسن، 110 وسندہ حسن) لہٰذا دونوں طرح عمل جائز ہے۔
9: پھر اپنے دونوں کانوں (کے اندر باہر) کا مسح ایک دفعہ کریں۔ (النسائی 1/73 ح101 وسندہ حسن، سنن ابی داود: 121 وسندہ حسن، 137 وسندہ حسن، ابن خزیمہ: 151، 167 وسندہ حسن والزیادۃ منہ، عامر بن شقیق حسن الحدیث وثقہ الجمہور، مصنف ابن ابی شیبہ 1/ 18 ح 176 وسندہ حسن، السنن الکبریٰ للنسائی: 161)
سیدنا عبداللہ بن مسعود اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہما کانوں کے اندر اور باہر کا مسح کرتے تھے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی ج 1 ص 64 وسندہ صحیح)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جب وضو کر تے تو اپنی شہادت کی انگلیاں کانوں میں داخل کر کے ان کے ساتھ کانوں کے اندرونی حصے کا مسح کرتے اور انگوٹھوں سے بیرونی حصے کا مسح کرتے تھے۔ (دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ 1/ 18 ح 173 وسندہ صحیح)
10: پھر اپنے دونوں پاؤں، ٹخنوں تک تین تین بار دھوئیں۔ (البخاری: 159 ومسلم:226)
تنبیہ: اعضائے وضو کو تین تین بار دھونا چاہئے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے لیکن انھیں دو دو بار اور ایک ایک بار دھونا بھی جائز ہے۔ (دیکھئے صحیح بخاری: 157، 158)
11: وضو کے دوران میں (ہاتھوں اور پاؤں کی) انگلیوں کا خلال کرنا چاہئے۔ [ابو داود: 142 وسندہ حسن (الترمذی: 39، وقال: ’’ھٰذا حدیث حسن غریب‘‘)]
12: داڑھی کا خلال بھی کرنا چاہئے۔ (الترمذی: 31 وقال: ’’ھٰذا حدیث حسن صحیح‘‘ / اس کی سند حسن ہے)
13: وضو کے بعدشرمگاہ پر پانی چھڑکنا چاہئے۔ (سنن ابی داود: 168 عن رسول اللہ ﷺ وسندہ حسن)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب وضو کرتے تو اپنی شرمگاہ پر پانی چھڑکتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 1 ص 167 ح 1775 وسندہ صحیح)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
اگر تم میں سے کوئی شخص وضو کرے تو مٹھی بھر پانی لے کر اپنی شرمگاہ پر چھڑک لے۔ اس کے بعد اگر اسے (وسوسے کی وجہ سے) کچھ (تری) محسوس ہو تو یہ سمجھے کہ یہ اسی پانی سے ہے (جو میں نے چھڑکا ہے۔)
(مسند مسدد بحوالہ المطالب العالیۃ: 117 و سندہ صحیح، وقال ابن حجر: ’’صحیح موقوف‘‘ / مختصر المطالب العالیۃ:117)
تنبیہ: وضوکے بعد رومالی پر پانی چھڑکنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
14: وضو کرنے کے دوران میں کسی دعا کا پڑھنا ثابت نہیں ہے۔
بعض لوگ وضو کے دوران میں
اللھم اغفرلي ذنبي ووسع لي في داري وبارک لي في رزقي والی دعا بحوالہ عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی (28)
وغیرہ پیش کرتے ہیں لیکن یہ روایت بلحاظِ سند ضعیف ہے۔ ابو مجلز کی سیدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔ دیکھئے نتائج الافکار لابن حجر (ج 1 ص 263 مجلس: 53) وتمام المنۃ للالبانی (ص 95)
اس کے برعکس سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ وہ یہ دعا
’’اللھم اغفرلي ذنبي و یسّرلي في أمري وبارک لي في رزقي‘‘
نماز کے بعد پڑھتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/ 297 ح 3033 وسندہ صحیح، یونس بن ابی اسحاق برئ من التدلیس)
15: وضو (اور غسل) کے بعد (کپڑے کے ساتھ)جسم پونچھیں یا نہ پونچھیں، دونوں طرح جائز ہے۔
نبی ﷺ نے غسل کے بعد (جسم پو نچھنے کے لیے) تولیا نہیں لیا۔ (صحیح بخاری: 276 وصحیح مسلم: 317)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ وضو کے بعد، تولئے کے ساتھ اپنا چہرہ پونچھتے تھے۔ (الاوسط لابن المنذر 1/ 415 ث 422 وسندہ حسن)
سیدنا بشیر بن ابی مسعود رضی اللہ عنہ (صحابی بلحاظ رؤیت) تولئے سے پونچھتے تھے۔ (الاوسط 1 /415 ث 424 وسندہ صحیح)
16: درج ذیل کاموں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے:
پیشاب کرنا، پاخانہ کرنا، ہو ا کا (دبر یا قبل سے) خارج ہونا، سو جانا، بیوی کو (شہوت سے) چھونا، شرمگاہ کو ہاتھ لگانا، مذی یا منی کا خارج ہونا، جماع کرنا، شرمگاہ کا شرمگاہ سے مل جانا اور اونٹ کا گوشت کھانا۔
17: وضو کے بعد درج ذیل دعائیں پڑھیں:
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی اِلٰہ (معبود برحق) نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد (ﷺ) اس (اللہ) کے بندے اور رسول ہیں۔
(مسلم: ب 17/ 234 وترقیم دار السلام: 554)
جو شخص پورا (مسنون) وضو کر کے یہ دعا پڑھتا ہے (پھر دو رکعتیں پڑھتا ہے) اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جس میں سے چاہے گا وہ داخل ہو گا۔ (مسلم: 234)
تنبیہ: سنن الترمذی (55) کی ضعیف روایت میں
’’اللھم اجعلني من التوابین واجعلني من المتطھرین‘‘
کا اضافہ موجود ہے لیکن یہ روایت، سند منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابو ادریس الخولانی اور ابو عثمان (سعید بن ہانئ/ مسند الفاروق لابن کثیر 1/ 111) دونوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کچھ بھی نہیں سنا، نیز دیکھئے میری کتاب ’’انوار الصحیفۃ فی الاحادیث الضعیفۃ‘‘ (ت: 55)
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ، اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ، اَسْتَغْفِرُکَ وَاَتُوْبُ اِلَیْکَ
اے اللہ! تُو پاک ہے اور حمدوثنا تیری (ہی) ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی الٰہ (معبود برحق) نہیں، تجھی سے میں اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں اور میں نے تیری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے۔
(النسائی فی الکبریٰ: 9909 وسندہ صحیح، عمل الیوم واللیلۃ: 81 وقال النسائی: ’’ھٰذا خطأ والصواب موقوف‘‘ والموقوف رواہ النسائی فی الکبریٰ: 9910 وسندہ صحیح، والموقوف والمرفوع صحیحان والحمدللہ)
تنبیہ: وضو کے بعد، آسمان کی طرف نظر اٹھا کر شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے دعائے وضو کا پڑھنا ثابت نہیں ہے۔ سنن ابی داود (170) کی جس روایت میں آسمان کی طرف نظر اٹھانے کا ذکر آیا ہے اس کی سند ابن عم زہرہ (مجہول) کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے۔ ابن عم زہرہ کو حافظ منذری نے مجہول کہا ہے۔ (دیکھئے عون المعبود 1/ 66 مطبوعہ فاروقی کتب خانہ ملتان)
فضیلۃ الباحث ابو زرعہ عبد الباسط شیخ حفظہ اللہ
بارك الله فيكم وعافاكم
یہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ الله علیہ کی کتاب سے ہے مکمل تحریر
اس میں وضو کے شروع میں بسم الله پڑھنے کے بارے جو روایتیں ہیں وہ ضعیف ہیں ائمہ متقدمین وعلل نے ہزاروں سال پہلے بتا دیا کہ اس باب میں مسنداکچھ ثابت نہیں ہے۔
سنن نسائی کے روایت میں ﺗﻮﺿﺌﻮا بسم الله کی زیادت معمر کی خطا و وھم ہے کیونکہ یہی روایت ان سے اوثق وأحفظ نے بیان کی ہے مگر کسی نے یہ زیادت ذکر نہیں کی ہے۔
ایسے ہی وضو کے بعد چھینٹے مارنے والی کوئی مرفوع روایت ثابت نہیں ہے۔
سواے ابن عمر رضی الله عنہ کے عمل کے یعنی جائز تو ہے مگر مرفوعا کوئی روایت ثابت نہیں ہے۔
اسی طرح اس میں بعض اور روایتیں محل نظر ہیں۔ هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ