سوال (2818)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوہریرہ! جب وضو کرو تو کہو « بِسْمِ اللّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ» ”اللہ کے نام سے اور تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔“ تیرے محافظ فرشتے تیرے اس وضو سے بے وضو ہونے تک بلکل آرام نہیں کرتے، بلکہ نیکیاں لکھتے ہی رہتے ہیں۔“
[معجم صغير للطبراني، كِتَابُ الطَّهَارَة، حدیث: 98]
اس حدیث کا کیا حکم ہے ؟

جواب

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ اﻟﺰﻧﺒﺮﻱ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ، ﺑﻤﺼﺮ , ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻴﻢ اﻟﺒﺮﻗﻲ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﺒﺼﺮﻱ، ﻋﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ، ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻴﺮﻳﻦ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ” ﻳﺎ ﺃﺑﺎ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﺇﺫا ﺗﻮﺿﺄﺕ ﻓﻘﻞ: ﺑﺴﻢ اﻟﻠﻪ ﻭاﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ؛ ﻓﺈﻥ ﺣﻔﻈﺘﻚ ﻻ ﺗﺴﺘﺮﻳﺢ ﺗﻜﺘﺐ ﻟﻚ اﻟﺤﺴﻨﺎﺕ ﺣﺘﻰ ﺗﺤﺪﺙ ﻣﻦ ﺫﻟﻚ اﻟﻮﺿﻮء ﻟﻢ ﻳﺮﻭﻩ ﻋﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ ﺃﺧﻮ اﺑﻦ ﺃﺧﻲ ﻋﺰﺭﺓ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ ﺇﻻ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺗﻔﺮﺩ ﺑﻪ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺳﻠﻤﺔ [المعجم الصغير للطبراني : 196]

حافظ ابن حجر نے کہا

وهو منكر
[لسان الميزان : 267]
ﻗﻠﺖ: ﻋﺰﺭﺓ ﻣﻦ ﺭﺟﺎﻝ اﻟﺼﺤﻴﺢ ﻭﺃﺧﻮﻩ ﻋﻠﻰ ﻣﺠﻬﻮﻝ ﻭاﻟﺮاﻭﻯ ﻋﻨﻪ ﺿﻌﻴﻒ
[روضة المحدثين : 5042 ،نتائج الأفكار :1/ 228]

اس کا ایک دوسرا سخت ضعیف طریق دیکھیے
[الموضوعات لابن الجوزي: 3/ 186]
حافظ ذہبی نے اسے مکذوبه کہا
[تلخیص المستدرک : 869]
تذكرة الموضوعات للفتني:ص:31 میں ہے منکر کا حکم ہےاسی طرح دیگر کتب موضوعات میں دیکھیے۔
تو یہ روایت ہرگز درجہ حسن کی نہیں ہے اسے حسن قرار دینا غلط ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ