والضحی نے مجھے کیا سمجھایا
وَالضُّحٰى (1) دن کی روشنی کی قسم
وَاللَّيْلِ اِذَا سَجٰى (2) اور رات کی جب وہ چھا جائے
مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰى (3) آپ کے رب نے نہ آپ کو چھوڑا اور نہ بیزار ہوا ۔
وَلَلْاٰخِرَةُ خَيْـرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى (4) اور البتہ آخرت آپ کے لیے دنیا سے بہتر ہے۔
وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَـرْضٰى (5) اور آپ کا رب آپ کو دے گا آپ خوش ہو جائیں گے۔
اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًا فَاٰوٰى (6) کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا تھا پھر جگہ دی۔
وَوَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى (7) اور آپ کو بے خبر پایا پھر راستہ بتایا۔
وَوَجَدَكَ عَآئِلًا فَاَغْنٰى (8) اور اس نے آپ کو تنگدست پایا پھر غنی کر دیا۔
فَاَمَّا الْيَتِـيْمَ فَلَا تَقْهَرْ (9) پھر یتیم کو دبایا نہ کرو۔
وَاَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنْهَرْ (10) اور سائل کو جھڑکا نہ کرو۔
وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ (11) اور ہر حال میں اپنے رب کے احسان کا ذکرکیاکرو۔
مجھے ہمیشہ سے سورۃ “والضحی” نے بہت زیادہ اٹریکٹ کیا ہے ناقابل بیان احساسات ہوتے ہیں اپنا آپ گونگا سا محسوس ہوتا ہے
سورۃ “والضحی” اصل میں محبت کی داستاں ہے۔
بلکہ اظہار محبت کی داستاں ہے۔
خالق کی مخلوق سے محبت کا اظہار۔
گو سورۃ والضحی ایک مخصوص نبوی پس منظر کے ساتھ وارد ہوئی ہے۔ لیکن اس کا انطباق قیامت تک کے لیے ہر محمدی پر ہو سکتا ہے شرط یہ کہ وہ قولی و عملی محمدی ہو۔
سورۃ والضحی کا پس منظر سمجھنے کی کوشش کریں۔
اسی سورت میں آیت نمبر سات کو پڑھیں
ایک خوبصورت وجود اپنے محبوب کی تلاش میں ہے
زندگی کا مقصد و ھدف سمجھ نہیں ا رہا،
زندگی کھانے پینے اور کمانے خرچ کرنے کا نام نہیں ہے۔
ہمیشہ سے ایسا ہوتا آیا ہے کہ تنہائی انسان کو بہت کچھ دیتی ہے غور و فکر تدبر تلاش حق،
حسن مجسم صلی اللہ علیہ وسلم تلاش حق میں،
زندگی کا مقصد کیا ہے؟
دنیا میں کیوں ائے؟
ہفتوں اکیلے غار حرا میں گزر جاتے
مظاہر فطرت پر غور و فکر، کائناتی اسرار پر تدبر
تین سال گزر گئے،
بیوی (رضی اللہ عنہا ہماری ماں) کمال ملی تھی،
جس نے تلاش حق کے اس سفر میں اپنے شریک حیات صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر مضبوط کیے رکھی،
کوئی شکوہ کوئی شکایت لبوں پر نہ تھا،
محبت ہو تو ایسی ہو،
محبوب کی سوچ کے مطابق ڈھل جانا،
اپنا سب کچھ قربان کر دیا کیا مال، کیا گھر، کیا کاروبار، کیا خاندان، تعلقات، معاملات سب کے سب بس محبوب کے اک اشارے کے منتظر ہوا کرتے تھے۔
اضطراب، بے چینی، غورو فکر، تدبر، تلاش حق، کون کیا کب کیسے کہاں کیوں
سوالات ہی سوالات،
جواب تلاشتے تلاشتے
اک دن” اقرا باسم ربک الذی خلق” کا سبق پڑھا دیا گیا
گویا ہر سوال کا جواب مل گیا۔
کیا آپ جانتے ہیں
برسوں کی تلاش کے بعد محبوب کا اچانک مل جانا،
کتنا سکون، راحت، اطمئنان قلب، انشراح صدر سب کچھ تو مل جاتا ہے، یہاں بھی ایسا ہی ہوا
لیکن یہ کیا ہوا؟
بس چند ملاقاتیں، باتیں۔۔۔ پھر اچانک غیاب
یکدم اضطرابی بے چینی سب واپس لوٹ آئی
کہیں ناراضی تو نہیں
کہیں محبوب کو ناراض تو نہیں کر دیا
کہیں کچھ ہو تو نہیں گیا
طرح طرح کے باتیں سوچیں پریشان کر رہی تھیں۔
اوپر سے دائیں بائیں کے طعن و تشنیع، استھزاء ، مذاق ۔۔۔
کہاں گیا تمہارا رب
چھوڑ دیا نا تمہیں
لیکن کچھ بڑا دینے اور لینے کے لیے آزمائش بھی بڑی ہوتی ہے
ابی جی رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ “جتنی بڑی ازمائش اتنا بڑا انعام”
پھر اچانک
مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰى (3)
آپ کے رب نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ بیزار ہوا ہے۔
سننے کو مل جائے تو بتائیں خوشی کا کیا عالم ہو گا۔ اب تو محبت کی یقین دھانی بھی تھی۔
تو کیا یہ آیت صرف حسن مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص یے۔ بظاہر لفظی طور پر تو ایسا ہی لگتا ہے لیکن جو سمجھ آئی ہے اللہ اپنی راہ پر چلنے کسی راہی کو اکیلا و تنہا نہیں چھوڑتا
شرط یہ ہے کہ “تلاش برائے حق ہو” ،
تلاش برائے مسلک،
تلاش برائے جیت
تلاش برائے مناظرانہ فتح
تلاش برائے تعصب
تلاش برائے فتویٰ
تلاش برائے مخالف کی ایسی کی تیسی پھیرنا نہ ہو
کانوں میں ایسی واہیات اور خرافات بھی سننے کو ملتی ہیں کہ
ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاق قرار دینے پر اھل حدیث حضرات زنا کرواتے ہیں۔ ایسے عقل کے ہائی کورٹ بلکہ سپریم کورٹ افراد کو صرف قرآن مجید سورۃ البقرۃ کی آیات ہی پڑھ لینی چاہیے۔ فقہی اختلاف ضرور رکھیں اپنے موقف پر ہی عمل کریں لیکن ایسے واہیات اور خرافاتی فتویٰ نہ جڑیں۔۔۔
اور حلالہ پر تمام احناف کو بلا تخصیص و تفریق لتاڑا جانا ۔۔۔
و قس علی ھذا۔۔۔
ابی جی رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ
پتر جی سارا کھیل ہی گوشت کے لوتھڑے میں مضمر ہے بس زندگی موت کے فیصلے وہیں ہوتے ہیں جسمانی طور پر کوئی زندہ ہو یا مردہ اصل زندگی تو پاور سٹیشن میں ہے جسے دل کہا جاتا ہے۔
وَلَلْاٰخِرَةُ خَيْـرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى (4)
اور البتہ آخرت آپ کے لیے دنیا سے بہتر ہے۔
اگر واقعی تلاش برائے حق ہے تو پھر یہ اللہ کی ضمانت ہے کہ ہر آنے والا وقت گذرے ہوئے وقت سے بہت بہتر ہو گا ان شاء اللہ۔ بظاہر تو آخرت کو دنیا کے مقابلے میں بہتر بتایا جا رہا ہے لیکن لفظوں کی ترتیب پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ لَلْاٰخِرَةُ سے مراد آنے والا وقت الْاُوْلٰى سے مراد گزرا ہوا وقت۔۔۔
وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَـرْضٰى (5)
اور آپ کا رب آپ کو دے گا کہ آپ خوش ہو جائیں گے۔
اگر واقعی ہی تلاش برائے حق ہے تو ہر آنے والے وقت میں اللہ وہ وہ کچھ دے گا جو تم نے سوچا بھی نہ ہوگا تمہارے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا، جو تم مانگتے تھے نا اس سے کہیں زیادہ۔
اور سب سے بڑھ کر اس آیت میں ایسی لذت آفریں تعبیر ہے کہ
اللہ دے گا اور ایسا دے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے
کیا کمال ہے کہ اللہ بندے کو راضی کرے گا
لیکن واضح رہے یہ سب کب ہو گا جب تلاش برائے حق ہو۔ ورنہ ڈھول پیٹتے رہیں کچھ پلے نہ رہے گا۔
سورۃ والضحی واقعی کبھی موقع ملا تو تفصیل سے ریکارڈ کرواوں گا۔
اس جیسی تسلی تشفی پیار محبت خلت مجھے قرآن مجید کی کسی سورۃ میں نہیں ملا۔
شاہ فیض الابرار صدیقی