سوال (6308)

ایک نوجوان کو شدید وہم کی بیماری ہے۔ وہ کافی پریشان بھی ہے۔ اس کا سوال ہے کہ وہ عموماً بیٹھا ہوتا ہے کسی مجلس میں اور بعد میں اسے وہم ہو جاتا ہے کہ میں نے کہیں اشارے سے بیوی کو طلاق تو نہیں دے دی۔ زبان سے کچھ کہا نہیں ہوتا اسے صرف اشارے کا وہم ہوتا ہے۔ کیا اس نوجوان کو یہ فتویٰ دیا جا سکتا ہے کہ اگر اسے ایسا وہم ہو تو بھی اس کی بیوی کو طلاق نہیں ہو گی؟
کیونکہ اگر اسے کہا جائے کہ اگر اس کی نیت نہ ہو تو طلاق نہیں ہوتی، تو وہ کہتا ہے پھر اسے نیت کا وہم ہو جاتا ہے کہ نہ جانے اسے اشارے کے وقت نیت تھی یا نہیں؟

جواب

اس کا وہم بس اسی بات پر ہے یا ہر بات کے لیے؟ مرض کی تشخیص و نوعیت لازمی ہے۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ

سائل: زیادہ اس بات پر ہے، باقی چیزوں پر بھی ہوتا ہے لیکن کم، اس کا تو اتنا ہے کہ عام کسی مجلس سے اٹھے گا تو وہم ہونا شروع ہو جائے گا۔ کہ شاید اس مجلس میں اس نےاسے اشارہ کر دیا ہے طلاق کا۔ حالانکہ بیوی سے اس کی بات بھی نہیں ہوئی ہوتی، یا کم از کم کوئی جھگڑا تو بالکل نہیں ہوا ہوتا۔
جواب: اس اشارہ مین نیت طلاق کی نہ رکھے اور اس پر سوچنا بند کرے اپنا علاج کروائے۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

وسوسہ ایک خطرناک بیماری ہے، اگر وہ اکیلا نکل نہیں پاتا، میڈیکلی علاج کرایا جائے، گھر والے اس کو آرڈر کے طور پر رکھیں کہ ایسے ایسے کرو، پھر وہ ان شاءاللہ نکل آئے گا، والدین دعائیں کریں، اذکار کرائیں، نماز پڑھائیں، اکیلا کچھ نہیں کر پائے گا، باقی یہ ہے کہ اگر وہ کسی کی شخصیت پر بات کرے کہ مجھے وہم ہوا ہے کہ میں نے طلاق دی ہے، سامنے والے کہے کہ وہم کیسا ہے، ابھی تو طلاق دی ہے، وہ کہے گا، کہ نہیں نہیں مجھے وہم ہوا ہے، ایسے ہی خود یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ کچھ نہیں ہوا۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

وسوسہ تو وسوسہ ہے۔ وہ حقیقت نہیں ہوتا۔ اسے جب ایسا وسوسہ آئے تو وہ خود سے واضح ثبوت مانگے۔ اس طرح وسوسہ دور ہو جائے گا۔
مزید یہ کہ وہ وسوسے کے خلاف عمل کرے۔ وساوس بعض دفعہ انسان کے اختیار میں نہیں ہوتے۔ البتہ رد عمل پر اسے اختیار حاصل ہے۔ انسان کا عمل وسوسے کے خلاف ہو تو وسوسے کی قوت ختم ہو جاتی ہے۔

فضیلۃ العالم قمر حسن حفظہ اللہ