واٹس ایپ استعمال کرنے کے چند آداب

واٹس ایپ وسیع پیمانے پر عام ہو چکا ہے، شاید ہی کوئی چھوٹا یا بڑا موبائل اس سے خالی رہا ہوگا۔ یہ ایپ، پیغامات، تصاویر اور لطائف کے تبادلہ کا اولین ذریعہ بن چکی ہے۔ اس کے پھیلاؤ سے بعض فائدے بھی حاصل ہوئے، مثلاً: رشتہ داروں اور دوست احباب کے ساتھ حسنِ سلوک، ان کی سماجی زندگی کی خبرگیری، خاندانی معاملات سے متعلق قابلِ مشورہ امور میں باہمی آراء کا تبادلہ وغیرہ۔ بہت سے لوگوں نے خاندانی، یا پیشہ ورانہ یا علمی گروپس بنالیے، جن میں شرکاء، معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں، اور مختلف معاشی، سیاسی اور علمی معاملات سے متعلق خبریں ایک دوسرے تک پہنچاتے ہیں۔

پیغامات کی کثرت سے بچیے

عام طور پر لوگ اس ایپ پر ایسے ٹوٹ پڑے ہیں کہ گویا یہ ان کی عادت کا حصہ، ان کی زندگی کا محور اور ان کی معلومات کا ذریعہ بن گیا ہے۔ لیکن یہ ایپ جتنا زیادہ وقت ضائع کرتی ہے، شاید کوئی اور چیز نہیں کرتی۔ اس وقت یہ ایپ فضول یاوہ گوئی، غیبت اور چغل خوری کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکی ہے، اسی کے ذریعے سے جھوٹی اور منگھڑت خبریں، اور ایسے طبی مشورے عام کیے جاتے ہیں، جن کی بنیاد میں کوئی تحقیق وتجربہ نہیں ہوتا۔ دین و اخلاق سے عاری لوگوں کے ہاں یہ گناہوں اور خدا کی نافرمانیوں کا ذریعہ ہے۔ اس لیے ہمیں مکمل آگاہی اور اپنے وقت پر مضبوط کنٹرول کے ساتھ اسے استعمال کرنا چاہیے۔ عقل مند مسلمان وقت کی اہمیت سے واقف ہوتا ہے، اور یہ بھی جانتا ہے کہ اللہ کی رضا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ زندگی کے خلاف کاموں میں ضائع کیے گئے ہر ہر منٹ کی اس سے پوچھ ہوگی۔

دینی پیغامات کی ترسیل میں احتیاط کیجیے

بہت سے دین دار لوگ اپنے پیغامات میں وعظ ونصیحت پر مشتمل مواد پھیلاتے ہیں، مثلاً: قرآنی آیات، احادیثِ نبویہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین اور دیگر نیک لوگوں کے واقعات اور ان کے اقوال، وغیرہ۔
قرآن کریم کی آیات کو نقل کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنی چاہیے، آیت پر اعراب (زبر زیر پیش وغیرہ) ہونا چاہیے، اور بہتر ہوگا کہ سورت کا نام اور آیت نمبر وغیرہ بھی ذکر کر دیا جائے۔ حدیثِ نبوی کو مستند کتابوں سے نقل کرنا چاہیے۔ اسی طرح صحابہ کرام وتابعین اور دیگر نیک لوگوں کے اقوال اور واقعات بھی ایسی معتمد اور معروف کتابوں سے لینے چاہئیں، جو من گھڑت اقوال، اسرائیلی روایات اور خرافات سے خالی ہوں۔
بعض لوگ، پیغام کے ساتھ کوئی احتیاط پر مبنی جملہ بھی لکھ دیتے ہیں، مثلاً: “دروغ بر گردنِ راوی” (جھوٹی بات کی ذمہ داری راوی پر ہے) یا “یہ تحریر مجھے یونہی ملی ہے” وغیرہ۔ یاد رکھیے کہ اتنا لکھنا کافی نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: “آدمی کے گناہ گار ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کردے”۔
عام طور پر لوگوں کی پھیلائی ہوئی بہت سی باتیں، شریعت اور قرآن وسنت کے احکام کے خلاف ہوتی ہیں، اگرچہ نقل کرنے والے مخلص ہی کیوں نہ ہوں، بسا اوقات انوکھے واقعات اور مبالغہ آمیزی میں دلچسپی کی بنا پر ایسی چیزیں شیئر کی جاتی ہیں۔ کبھی قربِ قیامت کی خبر، تو کبھی ظہورِ امام مہدی کی خوش خبری، اور کبھی کسی پیش آمدہ واقعہ سے علاماتِ قیامت کا انکشاف۔ عام طور پر ایسے پیغامات شیئر کرنے والے کسی وہم کا شکار ہوتے ہیں۔ ان پیغامات کی بنا پر بہت سے لوگوں کی ہمتیں اور عزائم، پست ہو جاتے ہیں؛ کیونکہ ایسے پیغامات پڑھ کر بہت سے کمزور اور کم ہمت لوگ مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں امتِ مسلمہ کے حالات کی تبدیلی کے لیے شروع کیے گئے تعمیری کاموں سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ وہ لوگ ان پیغامات میں ذکر کی گئی قربِ قیامت کی علامتوں کو تھام لیتے ہیں، اور یہ حدیث ان لوگوں کے ذہنوں سے اوجھل ہوجاتی ہے جو امام احمد رحمہ اللہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اگر قیامت اس حال میں قائم ہو کہ تم میں کسی کے ہاتھ میں کوئی بیج ہو، تو اگر قیامت قائم ہونے سے پہلے وہ اسے بو سکے تو بو دے”۔

منفی لطیفوں اور مذاق اڑانے سے اجتناب کیجیے

ایسے پیغات شیئر کرنے سے بچیے جو متعین لوگوں (کسی شہر یا ملک کے باسیوں، یا کسی پیشے سے تعلق رکھنے والوں) کا مذاق اڑاتے لطیفوں پر مشتمل ہوں۔ سورہ حجرات میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ. (الحجرات: ١١)

ترجمہ: “اے ایمان والو؛ نہ تو مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ (جن کا مذاق اڑارہے ہیں) خود ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہی ہیں) خود ان سے بہتر ہوں۔ اور تم ایک دوسرے کو طعنہ مت دیا کرو، اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد گناہ کا نام لگنا بہت بری بات ہے، اور جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں تو وہ ظالم لوگ ہیں”۔
مردوں کو ایسے لطیفوں سے گریز کرنا چاہیے جن میں عورتوں کی غفلت کا تذکرہ ہو، یا ساس کو برا اور بدنیت قرار دیا گیا ہو۔ یہ سب لغو اور بے فائدہ باتیں ہیں، جو امت کو بازاری اور گھٹیا قوم کے درجہ تک گرادیتی ہیں۔ ایسی باتیں شیئر کرکے آپ تمام عورتوں سے بد سلوکی کے مرتکب ہوتے ہیں، جن میں آپ کی بیوی، بیٹی، بہن اور اور دیگر عزیز خواتین بھی شامل ہیں۔

مبینہ سیاسی دستاویزات پھیلانے سے گریز کیجیے

واٹس ایپ وغیرہ پر بہت سی خود ساختہ خفیہ سیاسی خبریں اور دستاویزت پھیلا دی جاتی ہیں، جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی، یا وہ واقعہ کے برخلاف تحریف شدہ ہوتی ہیں، اور بسا اوقات نا معلوم افراد یا چھوٹی موٹی تنظیموں کی جانب سے شیئر کی جاتی ہیں، جن کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ لیکن انہیں اس طرح پھیلا دیا جاتا ہے کہ گویا وہ اسلام یا مسلمانوں اور ان کے مسائل کے تعلق سے کسی ملک یا معاشرے کی منفی یا مثبت رائے کی نمائندہ دستاویزات ہیں۔ مثلاً: جنگ آزادی کے بعد ترکی کی جانب سے دستخط شدہ “معاہدۂ لوزان” سوشل ویب سائٹس پر وائرل ہے، اور ان ذرائع کے مطابق اس معاہدہ کی رو سے ترکی کے لیے ننانوے (۹۹) سال تک پیٹرول تلاش کرنا ممنوع ہے۔ حالانکہ یہ بات بے بنیاد اور خلافِ حقیقت ہے۔ اس معاہدہ کے بعد بھی کئی بار ترکی میں پیٹرول کو تلاش کیا گیا، لیکن تجارتی تیل کی دریافت نہیں ہوئی۔

کوئی پیغام بھیجنے سے قبل نظرِ ثانی کیجیے

جب آپ کوئی پیغام لکھیں تو اسے بھیجنے سے قبل نظرِ ثانی کرلیجیے؛ تاکہ آپ کا پیغام، املاء کی غلطیوں اور موبائل کی خود کار اصلاحات سے خالی ہو جائے، اور پیغام وصول کرنے والے کے لیے اس کا مفہوم واضح ہو۔ آپ اپنے پیغام کے مضمون، اس کی صداقت اور اہمیت پر غور کیجیے اور یہ دیکھیے کہ جسے آپ بھیج رہے ہیں اس کے نزدیک اس پیغام کی کیا حیثیت ہوگی؟! اب اگر آپ کو اس پیغام میں کوئی فائدہ محسوس ہو تو بھیج دیجیے۔

واٹس ایپ گروپس

بہت سے لوگ گروپس بنا لیتے ہیں، جن میں ان کے کچھ متعلقین اور دوست احباب شریک ہوتے ہیں، ان گروپس میں یہ لوگ باہمی دلچسپی کے موضوعات، واقعات اور خبروں پر تبادلہ خیال کرتے ہیں، اور کبھی کسی اور شخص کو بھی پیشگی اجازت کے بغیر گروپ میں شامل کرلیتے ہیں۔
بہتر ہوگا کہ گروپ بنانے کا ارادہ رکھنے والا خود اپنے آپ سے کچھ سوالات کرے: کیا اس گروپ کا کوئی فائدہ ہوگا؟! اس میں شیئر کیے گئے مواد پر کیسے کنٹرول ہو سکے گا؟! کیا وہ گروپ کو کنٹرول رکھنے کے لیے وقت دے پائے گا؟! نیز جو لوگ گروپ میں داخل کیے گئے ہوں، اگر انہیں اس گروپ میں کوئی ٹھوس فائدہ محسوس نہ ہو، اور اس سے جڑے رہنے میں اپنا وقت ضائع ہوتا دکھائی دے تو انہیں ایسے گروپ سے نکل جانا چاہیے۔ میں نے نوٹ کیا ہے کہ بہت سے گروپس چند لوگوں کے لیے منبر ومحراب کی حیثیت رکھتے ہیں، جبکہ دیگر شرکاء سامعین کے درجے میں ہوتے ہیں، جو کبھی کبھار ہی کوئی شیئرنگ اور عملی شرکت کرتے ہیں، ایسے گروپس کا فائدہ کم اور ان میں شیئر کردہ مواد کمزور ہوتا ہے۔ ان کے ذریعے کچھ فعال لوگ اپنی شخصیات کو نمایاں کرتے اور ذاتی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں۔

تحریر: استاذ محمد زاہد ابوغدہ حفظہ اللہ

اردو ترجمانی: محمد یاسر عبداللہ

جامعہ علومِ اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی

یہ بھی پڑھیں: مَحبّتوں کے گلاب زادے