سوال (2941)

وراثت میں مسئلہ مشرّکہ کی وضاحت کریں۔

جواب

امام دارمی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی سنن میں ایک باب قائم کرتے ہیں: باب في الْمُشَرَّكَةِ یعنی: مشرکہ بھائیوں کی شرکت کا بیان۔ اس باب کے تحت آپ درج ذیل حدیث ذکر کرتے ہیں:

حدثنا محمد بن الصلت، حدثنا ابو شهاب، عن الحجاج، عن عبد الملك بن المغيرة، عن سعيد بن فيروز، عن ابيه: ان عمر قال في المشركة: “لم يزدهم الاب إلا قربا. (2921)

ترجمہ: سعید بن فیروز نے اپنے والد سے روایت کیا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مشرکہ کے مسئلہ میں کہا: تینوں قسم کے بھائیوں میں باپ اور قربت پیدا کر دیتا ہے۔
مسئلہ مشرکہ، راء کے کسرہ، فتح اور تشدید تینوں طرح سے پڑھا گیا ہے، یا مشترکہ ،تاء کے اضافے کے ساتھ،یہ ہے کہ حقیقی بھائی اخیافی بھائیوں کے ہوتے ہوئے وارث بنے گیں یا نہیں۔ اس مسئلہ میں سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا زید رضی اللہ عنہم اور قاضی شریح رحمہ اللہ وغیرہ حقیقی، علاتی اخیافی یعنی مادری و پدری سب بھائیوں کو شریک کرتے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ شریک نہ کرتے تھے۔ لیکن بعد ازاں امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اجتہاد کر کے حقیقی بھائی یا بھائیوں کو مادری بھائیوں کے حصہ تہائی میں شریک قرار دیا۔
اس مسئلہ کو مشترکہ، مشترکہ حجریہ (اور عمریہ و حماریہ) بھی کہتے ہیں۔ اس مسئلہ میں علماء کا یہ موقف بھی ملتا ہے کہ حقیقی بھائی اخیافی بھائیوں کے ساتھ وارث نہیں بنتے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

“أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ”

“فرض حصے ان کے مستحقین کو دے دو اور جو باقی بچےوہ زیادہ قریبی مذکر مرد کے لئے ہے”
[صحیح بخاری : 6732 ، صحیح مسلم : 1615]
لیکن اس کے حل میں ہمیں صحابہ کرام کی دو مختلف آراء بھی ملتی ہیں:
1- یہ کہ شوہر کو 1/2 دیں، ماں کو 1/6، اخیافی بھائی کو 1/3 اور باقی ماندہ حصہ -اگر بچ جائے- حقیقی بھائی کو۔ یہ مذہب حضرت أبو بكر، علي، ابن عباس، أُبي بن كعب، أبو مُوسى الأشعري اور ابن مسعود کا ہے۔
2- یہ کہ شوہر کو 1/2 دیں، ماں کو 1/6، اخیافی اور حقیقی بھائیوں کو ملا کر مشترکہ حصہ 1/3 دیں۔ یہ مذہب حضرت عثمان بن عفان، اور زيد بن ثابت وابن مسعود ایک دوسرے قول کے مطابق کا ہے۔
نوٹ: یہ مسئلہ درج ذیل وارثوں کے ہوتے ہوئے ہی ہوتا ہے:
1- شوہر۔
2- ماں۔
3- أخ للأم یعنی اخیافی بھائی۔
4- حقیقی بھائی
ان میں سے کوئی ایک بھی وارث کم ہو تو یہ مسئلہ مشرکہ نا کہلائے گا۔
والله تعالى أعلم.

فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ