سوال (4206)

وتر کے علاؤہ دیگر نمازوں میں کیا قنوت نازلہ کرتے ہوئے دعائے قنوت پڑھی جاسکتی ہے؟

جواب

قنوت نازلہ میں اصل یہ ہے کہ اس میں رحمت کی دعائیں اور حمد وغیرہ کے بجائے، بددعا کے الفاظ سے آغاز کیا جائے اور اسی پر فوکس کیا جائے، یہ خطاء عام ہے کہ حمد بیان کر کے قنوت کیا جاتا ہے، حمد اللہ کی رحمت کو عام کرتا ہے، جبکہ غضب کی دعا اس کے منافی ہے.
صحیح میں اس پر نص ہے، غالبا انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی علیہ السلام نے سمع اللہ لمن حمدہ کے بعد لعنت سے آغاز کیا۔ واللہ اعلم
باقی قنوت عام میں یہ اور دیگر دعائیں کی جا سکتی ہیں، بلکہ یہ دعا وتر کے لیے نہیں ہے یعنی کسی بھی وقت کی جا سکتی ہے جن رواۃ نے اس کو وتر کے ساتھ خاص کیا ہے کہ ان کی خطا ہے، یہ دعائے عام ہے راجح یہی ہے.

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

محترم بھائی ایک بات مزید آگاہ کیجئے،
ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی تعلیم دی ہے کہ دعا کی ابتدا میں ثنائے الہی کرنا دعاہی کا حصہ ہے، اس سے متصادم نہیں ہے، جیسے فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی دعا شروع کرے تو پہلے حمد و ثنا بیان کرے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے، اور اس کے بعد جو چاہے سو مانگے)
ترمذی: ( 3477 ) | ابو داود ( 1481 ) | البانی رحمہ اللہ نے اسے “صحیح ترمذی” میں صحیح کہا ہے۔
اللہ سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کرنے والا جب اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتا ہے اور مطلوبہ چیز مانگتا ہے تو دعا کا یہ طریقہ واضح لفظوں میں زیادہ اثر رکھتا ہے، قنوتِ نازلہ سے مقصود یہی ہے کہ مظلوم و مقہور مسلمانوں کی نصرت و کامیابی اور خونخوار وسفاک دشمن کی تباہی و بربادی کے لئے دعا کی جائے۔ اس لئے جو دعا اور دعا کا جو طریقہ اس مقصد کو پورا کرے اسے اختیار کیا جائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم

فضیلۃ الباحث حسان بن ارشد حفظہ اللہ

قنوت نازلہ میں ایک اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ اس میں طوالت بہت زیادہ نہ ہو مشاہدہ میں آیا ہے کہ بعض آئمہ اور قراءکرام قنوت نازلہ کو طویل کرنے کے لیے بھی اس میں ہر طرح کی دعائیں شامل کر لیتے ہیں جس میں اصلاح نفس، اصلاح معاشرہ، صحتیابی اور دیگر بھی شامل ہوتی ہیں جبکہ اس طوالت کے سبب کچھ لوگ نماز باجماعت سے بھی دور ہو جاتے ہیں۔

فضیلۃ الباحث طارق رشید وہاڑی حفظہ اللہ

مسألة عام میں یہی قاعدہ ہے، کہ حاجت کے آغاز سے پہلے حمد و درود ہو۔
مسألۃ میں ساتھ ساتھ بھی صفات الہٰی کا ذکر ہو سکتا ہے جیسے دعائے استخارہ میں ہے۔ واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ