سوال (3246)

کیا وتر نماز کے بعد دو رکعت پڑھنے سے تہجد کا اجر ملتا ہے، کیا ایسی کوئی روایت ہے؟ اس حوالے سے رہنمائی درکار ہے؟

جواب

وتر کو رات کی آخری نماز بنانا چاہیے۔ [بخاری : 472]
البتہ وتر کے بعد دو رکعات پڑھنا بھی ثابت ہے، اور جو شخص رات کے وقت جاگ جائے تو وہ تہجد کی مزید رکعات بھی پڑھ سکتا ہے، خواہ وہ رات وتر پڑھ کر سویا تھا۔ لیکن اگر وہ نا جاگ سکا تو وتروں کے بعد دو رکعات پڑھ کر سوتا ہے، تو یہ دو رکعات اس کے لیے تہجد ہی شمار ہوں گی۔

عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِى سَفَرٍ فَقَالَ « إِنَّ السَّفَرَ جَهْدٌ وَثِقَلٌ فَإِذَا أَوْتَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ فَإِنِ اسْتَيْقَظَ وَإِلاَّ كَانَتَا لَهُ ».

نبی اکرم ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان ؓ بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں شریک تھے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا سفر مشکل اور تھکن کا باعث ہوتا ہے، جب کوئی شخص وتر اداکرے تو وہ اس کے ساتھ دو رکعت ادا کرلے، اگر وہ بیدار ہوگیا تو ٹھیک ہے ورنہ یہ دو رکعت اس کے لیے کافی ہوں گی۔
[سنن دار قطنی، کتاب: وتر کا بیان، باب: باب وتر کے بعد دو رکعت ادا کرنا ، حدیث نمبر: 1663، سندہ، حسن]
ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب

فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ

اولی و افضل یہی ہے کہ وتر کو رات کی آخری نماز بنایا جائے، البتہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے وتر کے بعد بیان جواز کے لیے دو رکعت پڑھیں ہیں، وتر دراصل نماز تہجد کا حصہ ہیں جو مستقل تہجد پڑھنے والا ہے وہ عموما وتر کو آخر پر ہی پڑھیں ہاں جو وتر لا علمی کے سبب پڑھ چکا ہے اور تہجد پڑھنا باقی ہے تو اب وہ تہجد ادا کر لے، ہمارے فاضل بھائی نے جو سنن دارقطنی کی روایت سے استدلال کیا ہے تو اس حدیث کا تعلق سفر کے ساتھ ہے یعنی مقید وخاص ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:

ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ اﺑﻦ ﻗﺘﻴﺒﺔ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺣﺮﻣﻠﺔ، ﺣﺪﺛﻨﺎ اﺑﻦ ﻭﻫﺐ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺑﻦ ﺻﺎﻟﺢ، ﻋﻦ ﺷﺮﻳﺢ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺟﺒﻴﺮ ﺑﻦ ﻧﻔﻴﺮ، ﻋﻦ ﺛﻮﺑﺎﻥ ﻗﺎﻝ: ﻛﻨﺎ ﻣﻊ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻲ ﺳﻔﺮ، ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻥ ﻫﺬا اﻟﺴﻔﺮ ﺟﻬﺪ ﻭﺛﻘﻞ، ﻓﺈﺫا ﺃﻭﺗﺮ ﺃﺣﺪﻛﻢ ﻓﻠﻴﺮﻛﻊ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ، ﻓﺈﻥ اﺳﺘﻴﻘﻆ ﻭﺇﻻ ﻛﺎﻧﺘﺎ ﻟﻪ
[صحیح ابن حبان : 2577 ، ﺫﻛﺮ اﻷﻣﺮ ﺑﺮﻛﻌﺘﻴﻦ ﺑﻌﺪ اﻟﻮﺗﺮ ﻟﻤﻦ ﺧﺎﻑ ﺃﻥ ﻻ ﻳﺴﺘﻴﻘﻆ ﻟﻠﺘﻬﺠﺪ ﻭﻫﻮ ﻣﺴﺎﻓﺮ، صحیح ابن خزیمہ : 1106، سنن دارمی : 1635 ،مسند البزار: 4193 ، شرح معانی الآثار للطحاوى : 2011 ، سنن دارقطنی: 1683 و غيره سنده حسن لذاته]

تنبیہ 1: السھر صرف سنن دارمی ہے باقی تمام کتب میں السفر ہے اور یہی راجح ہے۔
تنبیہ’2: امام عبد الله بن وهب کی متابعت عبدالله بن صالح نے کر رکھی ہے اور سنن دارقطنی میں اس سے امام ابو زرعہ روایت کر رہے ہیں تو جب عبد الله بن صالح كاتب الليث سے ائمہ حذاق و حفاظ مثل امام ابو حاتم الرازی، امام ابو زرعہ الدمشقی، امام بخاری،امام یحیی بن معین روایت کریں اور سند میں کوئی اور علت نہیں ہو تو وہ روایت قابل حجت ہوتی ہے بصورت دیگر احکام میں ضعیف ہوتی ہے تفرد کے سبب۔
اس روایت کے بارے یہ تحقیق و اصول ہم نے تحقیق مشکاۃ المصابیح میں لکھ رکھی ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

بارک اللہ فیک۔
وتر کے بعد دو رکعات پڑھنا سفر کے ساتھ خاص نہیں، مطلقا بھی وتر کے بعد دو رکعات پڑھنا سنت سے ثابت ہے۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ يَحْيَی عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ کَانَ يُصَلِّي ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَکْعَةً يُصَلِّي ثَمَانَ رَکَعَاتٍ ثُمَّ يُوتِرُ ثُمَّ يُصَلِّي رَکْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْکَعَ قَامَ فَرَکَعَ ثُمَّ يُصَلِّي رَکْعَتَيْنِ بَيْنَ النِّدَائِ وَالْإِقَامَةِ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ [صحیح مسلم: 1724]

رسول اللہ ﷺ کی نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: آپ ﷺ تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے، آٹھ رکعتیں اور پھر وتر پڑھتے، پھر بیٹھ کردو رکعتیں پڑھتے تو جب رکوع کا ارادہ ہوتا تو کھڑے ہوجاتے، پھر آپ ﷺ صبح کی اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعت (سنت) پڑھتے۔
تنبیہ: وتر کو آخر پڑھنا چاہیے، یہ مستحسن عمل ہے، بخاری: 472، لیکن صحیح مسلم کی مذکورہ حدیث میں سفر کی قید کے بغیر بھی وتر کے بعد نوافل پڑھنے کا جواز موجود ہے
ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب

فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ

وفيك بارك الله وعافاكم
میں نے وتر کے بعد دو رکعت پڑھنے اور ثابت ہونے کی نفی نہیں کی ہے، بلکہ جو روایت آپ نے ذکر کی ہے، اس کے بارے بتایا ہے کہ اس کا تعلق سفر کے ساتھ ہے اور اس میں موجود فضیلت کا بھی، آپ سفر کے ساتھ خاص فضیلت رکھنے والی روایت سے مطلق فضیلت لے رہے ہیں۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ