سوال (6331)
قَالَ وَكَانَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَسَارِهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَيَضَعُ إِحْدَى يَدَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى۔
محترم شیوخ عظام ان الفاظ کی وضاحت درکار ہے خصوصاً قَالَ وَكَانَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَسَارِهِ وَعَنْ يَمِينِهِ کی؟
جواب
اس حدیث میں نماز کا مختصر بیان ہے، کچھ الفاظ چھوٹ گئے ہیں، کچھ بیان ہوگئے ہیں، اس لیے سلفی مذہب یہ ہے کہ موضوع کی تمام روایات کو جمع کیا جائے تو پھر فیصلہ ہوتا ہے، اس میں دائیں بائیں سلام کا ذکر ہے، پہلے کا ذکر بعد میں کیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سلام پھیر کر ہاتھ رکھیں، تمام روایات کو جمع کریں تو مسئلہ اس طرح سامنے آئے گا۔ جس طرح میں نے بتایا ہے، یہ سلام کی بحث ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: جی شیخ محترم! یہ حدیث کسی شیخ نے ہاتھ باندھنے کے معاملے میں لکھی تھی باقی بات تو ٹھیک ہے مگر کان ینصرف والے الفاظ سمجھ میں نہیں آرہے تھے، اگر سلام کا معاملہ ہے تو پھر تو سمجھ آتی ہے، اسلام 360 میں ترجمہ اس طرح کیا گیا کہ راوی کہتے ہیں کہ میں نے انہیں دائیں جانب سے بھی دیکھا اور بائیں جانب سے بھی دیکھا کہ آپ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھتے تھے۔اس لیے آپ کو زحمت دی۔جزاکم اللّٰہ خیرا۔
جواب: میں قصدا اس طرف نہیں گیا ہوں، مجھے معلوم تھا کہ معاملہ کیا ہے، دیکھیں یہ راوی کا بیان ہے، تقدیم و تاخیر ہے، ورنہ یہ ثابت ہوگا کہ نماز میں سلام کے بعد بھی آپ کو ہاتھ باندھنا چاہیے، میں اس پر سخت جملہ نہیں کہتا ہوں، بس جو ارسال الیدین کا موقف رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑنے والوں کا موقف علی وجہ البصیرت ہے، دو ٹوک طریقے سے ٹھوس آثار پر مبنی ہے، شیخ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ نے مضمون لکھا ہے، میں نے بھی لکھا ہے کہ ایک طالب علم کی کوشش ہے، دیکھنے کے لائق ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ




