سوال (5460)
ہم آٹھ بہن بھائی ہیں: چار بھائی اور چار بہنیں۔
پس منظر:
1998/99 میں والد صاحب نے اختلافات ختم کرنے کے لیے اپنی جائیداد سات حصوں میں تقسیم کی: ایک حصہ اپنے لیے، ایک والدہ کے لیے، ایک حصہ دو چھوٹی بیٹیوں کے لیے، اور باقی چار بیٹوں میں ایک ایک حصہ۔ شادی شدہ دو بیٹیوں کو کہا کہ وہ اپنا حصہ لے چکی ہیں۔
والد اور والدہ کا حصہ اور دو چھوٹی بیٹیوں کا حصہ دو بھائیوں کے سپرد کیا کہ دیکھ بھال کریں اور بیٹیوں کا حصہ شادی پر جہیز میں دیں۔
دو بھائیوں نے دیگر دو بھائیوں کو نقد حصہ دے کر باقی جائیداد اپنے نام منتقل کروا لی۔
2008 میں والد کا انتقال، 2010 اور 2020 میں دو بہنوں کی شادی اور ان کے حصے جہیز پر خرچ ہوئے، 2023 میں والدہ کا انتقال۔
موجودہ تنازع:
بہنوں کا کہنا ہے:
1. والد کی تقسیم 1:2 کے اصول پر تھی، لہٰذا یہ ہبہ درست نہیں بلکہ اب 1:1 تقسیم ہونی چاہیے۔
2. شادی پر ملنے والی رقم تحفہ تھی، وراثت کا حصہ نہیں۔
3. بہنوں نے بھی گھر کے کام میں مدد کی، لہٰذا اجرت ملنی چاہیے۔
4. بھائیوں کا اگر اجرت کا حق ہے تو وہ اپنی فیملی سمیت کاروبار سے فائدہ اٹھاتے رہے، لہٰذا باقی منافع سب میں تقسیم ہو۔
سوالات:
1. کیا والد زندگی میں جائیداد کو “للذکر مثل حظ الأنثيين” کے اصول پر تقسیم کر سکتا ہے؟
2. اگر بیٹی کو شادی پر 12 لاکھ روپے دیے جائیں، تو کیا بیٹے بھی اسی قدر تحفے کے حق دار ہیں؟
3. مشترکہ کاروبار میں کام کرنے والا بھائی کیا دیگر بہن بھائیوں سے اجرت لے سکتا ہے؟
4. کیا بھائی کی فیملی کے اخراجات اجرت ساقط کر دیتے ہیں؟
5. کیا گھر کے کام میں مدد کرنے والی بیٹی/بہن اجرت کی حق دار ہے؟
6. والد کی زندگی میں کی گئی تقسیم کو وفات کے بعد منسوخ کر کے دوبارہ کی گئی تقسیم وراثت شمار ہوگی یا ہبہ؟
جواب
کیا والد زندگی میں جائیداد کو “للذکر مثل حظ الأنثيين” کے اصول پر تقسیم کر سکتا ہے؟
نہیں، زندگی میں تقسیم وراثت نہیں بلکہ ہبہ ہے، اور ہبہ میں شریعت کا اصول ہے کہ بیٹے اور بیٹی کو برابر دیا جائے۔ لہٰذا والد اگر زندگی میں بیٹے کو بیٹی سے زیادہ دے تو یہ شرعاً ناجائز ہے، الا یہ کہ بیٹی راضی ہو یا کوئی معقول شرعی وجہ ہو (مثلاً بیٹے پر قرض یا کسی خاص مجبوری کی بنیاد پر دینا)۔
اگر بیٹی کو شادی پر 12 لاکھ روپے دیے جائیں، تو کیا بیٹے بھی اسی قدر تحفے کے حق دار ہیں؟
جی ہاں، اگر یہ رقم ہبہ کے طور پر دی گئی تھی (بطور جہیز نہیں بلکہ نقد یا سامان کا تحفہ)، تو دوسرے بچوں کو بھی برابر دینا واجب ہے۔اگر یہ شادی کے اخراجات کے طور پر دی گئی تھی اور یہ سب اولاد کے لیے عرفاً کیا جاتا ہے، تو پھر یہ تحفہ نہیں بلکہ شادی کا خرچ شمار ہو گا، اور اس میں برابری لازم نہیں، بشرطیکہ یہ واقعی شادی کے لیے خرچ ہوا ہو۔
مشترکہ کاروبار میں کام کرنے والا بھائی کیا دیگر بہن بھائیوں سے اجرت لے سکتا ہے؟
اگر کاروبار سب کی ملکیت میں ہے اور ایک بھائی اس میں بطور عامل کام کرتا ہے، تو شرعاً وہ اپنی محنت کی اجرت کا حق رکھتا ہے، بشرطیکہ اجرت پہلے سے طے ہو یا سب کی باہمی رضامندی سے بعد میں طے کی جائے۔اگر پہلے سے اجرت طے نہیں تھی، اور اس نے بطورِ احسان کام کیا، تو اب بعد میں اجرت کا مطالبہ کرنا شرعاً مشکل ہے، الا یہ کہ سب بھائی بہن رضامند ہوں۔
کیا بھائی کی فیملی کے اخراجات اجرت ساقط کر دیتے ہیں؟
اگر بھائی کاروبار سے منافع لیتا رہا اور اپنے گھر/فیملی کے اخراجات اسی منافع سے پورے کرتا رہا، اور یہ سب کی خاموش رضامندی سے ہوا، تو یہ اجرت کے بدلے شمار ہو سکتا ہے۔لیکن اگر اجرت الگ سے طے تھی، تو فیملی کے اخراجات کا اُٹھانا اجرت ختم نہیں کرتا، جب تک کہ باہمی اتفاق نہ ہو۔
کیا گھر کے کام میں مدد کرنے والی بیٹی/بہن اجرت کی حق دار ہے؟
گھر کے عام کام میں بیٹی/بہن کا مدد کرنا خاندانی تعاون ہے، اجرت نہیں بنتی، الا یہ کہ پہلے سے اجرت طے ہو۔ اگر کسی بہن نے گھر یا کاروبار میں مسلسل بطورِ ملازم کام کیا اور یہ طے تھا کہ اجرت دی جائے گی، تو اجرت واجب ہے۔ محض بہن یا بیٹی ہونے کے ناطے گھر کے کام پر شرعاً اجرت نہیں بنتی۔
والد کی زندگی میں کی گئی تقسیم کو وفات کے بعد منسوخ کر کے دوبارہ کی گئی تقسیم وراثت شمار ہوگی یا ہبہ؟
اگر والد نے زندگی میں باقاعدہ قبضہ دلا دیا تھا (جس کو حصہ دیا، وہ اس پر تصرف کر سکتا تھا)، تو یہ ہبہ مکمل ہے اور وفات کے بعد واپس نہیں کیا جا سکتا۔
اگر محض کاغذی تقسیم تھی، اور قبضہ نہیں ہوا، تو یہ ہبہ مکمل نہیں ہوا، اور وفات کے بعد اس کو وراثت کے اصول پر تقسیم کیا جائے گا۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ