سوال (4627)
وسعت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرنا اس پر کوئی شرعی دلیل ہے؟
جواب
شریعت کہتی ہے کہ جس کے پاس وسعت ہو تو وہ قربانی کرے، اگر وسعت کے باجود قربانی نہیں کرتا ہے تو وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے، روایت موقوف ہے، لیکن حکما مرفوع ہے، یہ روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہے، بعض لوگوں نے وجوب کا بھی فتویٰ دیا ہے، لیکن ہمارے نزدیک سنت مؤکدہ ہے، لیکن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دونوں کبھی کبھار قربانی نہیں کرتے تھے تاکہ لوگ اس کو فرض نہ سمجھیں، اس لیے کوئی کبھی کبھار قربانی نہیں کرتا کہ لوگ اس کو فرض نہ سمجھیں، تو کوئی حرج نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
اس حوالے سے مرفوعا تو کوئی حدیث الگ سے نہیں۔ البتہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے موقوفا ثابت ہے۔
“سَمِعْتُ ابَا هُرَيْرَةَ وَهُوَ فِي الْمُصَلَّى يَقُولُ مَنْ قَدَرَ عَلَى سِعَةٍ فَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا”
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے. [التمهيد- ابن عبد البر- ط المغربية: ٢٣/١٩١] سندہ، صحیح.
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ