سوال (4910)

وضو کے دوران دعائیں پڑھنا سنت سے ثابت ہے؟ (دونوں ہاتھ دھونے کی دعا مسواک کرنے کی دعا چہرہ دھونے کی دعا بازو دھونے کی دعا پاؤں دھونے کی دعا وغیرہ)

جواب

ارشاد باری تعالی ہے:

“لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا”

بلاشبہ یقیناً تمھارے لیے الله کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے، اس کے لیے جو الله اور یوم آخر کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہو [سورۃ الأحزاب:21]
اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن الشیخ حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی رحمه الله تعالى لکھتے ہیں:
رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنے تمام اقوال، افعال اور احوال میں مسلمانوں کے لیے بہترین نمونہ ہیں، جن پر انھیں چلنا لازم ہے اور ان کے لیے جائز نہیں کہ اپنی انفرادی یا اجتماعی زندگی کے کسی معاملہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی پیروی سے گریز کریں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

“قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ”

کہہ دیں اگر تم الله سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، الله تم سے محبت کریں گے اور تمھیں تمھارے گناہ بخش دیں گے اور الله بے حد بخشنے والے، نہایت مہربان ہیں[آل عمران:31]
پھر لکھتے ہیں
اس اسوہ حسنہ پر وہی لوگ چلتے ہیں اور انھی کو اس کی توفیق ملتی ہے جن میں تین وصف ہوں، ایک الله پر ایمان، الله سبحانه وتعالى سے ملاقات اور ان کے دیدار کی امید، دوسرا آخرت پر ایمان اور اس کے ثواب کی امید اور تیسرا کثرت سے الله تعالی کو یاد کرنا۔ ان لوگوں کو یہ تینوں چیزیں رسول الله صلى الله عليه وسلم کی پیروی کے لیے ہر وقت آمادہ اور مستعد رکھتی ہیں، بخلاف کافر اور منافق کے جس کا نہ الله تعالى پر ایمان ہے، نہ آخرت پر اور نہ کبھی اس نے اپنے مالک کو یاد کیا، تو ان لوگوں کے سامنے دنیا کی زندگی اور اس کی لذتوں کے سوا کچھ ہے ہی نہیں، اس لیے وہ رسول کو نمونہ بنانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے۔
[تفسير القرآن الكريم،تفسیر سورۃ الأحزاب: 21]
صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اقوال وافعال و اوامر ونواہی میں کبھی بھی مخالفت نہیں کرتے تھے وہ وہی عمل کرتے تھے جو رسول اکرم صلی الله علیہ کے ارشادات وافعال سے ان تک پہنچتا یا جسے وہ خود کرتے ہوئے نوٹ کرتے تھے اور یہ سب وہ رب العالمین کے ان ارشادات کی روشنی میں کرتے تھے جو قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں جن میں رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع کا حکم دیا گیا ہے، صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنت وتعلیم سے زیادہ کچھ نہیں کرتے تھے۔
ملاحظہ فرمائیں:
حالت سفر میں صرف دو رکعت نماز پر اس لئے اکتفا کرنا کہ یہی طریقہ مصطفی صلی الله علیہ وسلم ہے، حفص بن عاصم بن عمر بیا ن کرتے ہیں کہ میں نے سفر میں سنتوں کے متعلق عبدالله بن عمر رضی الله عنہما سے پوچھا
تو آپ نے فرمایا:

صَحِبْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أَرَهُ يُسَبِّحُ فِي السَّفَرِ وَقَالَ اللَّهُ جَلَّ ذِكْرُهُ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ إِسْوَةٌ حَسَنَةٌ،

میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی صحبت میں رہا ہوں۔ میں نے آپ کو سفر میں کبھی سنتیں پڑھتے نہیں دیکھا اور الله جل ذکرہ کا ارشاد ہے کہ بلاشبہ یقیناً تمھارے لیے الله کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے۔
[صحیح البخاری: 1101 بَابُ مَنْ لَمْ يَتَطَوَّعْ فِي السَّفَرِ دُبُرَ الصَّلاَةِ وَقَبْلَهَا]
عِيسَى بْنِ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ کہتے ہیں۔

حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ لَا يَزِيدُ فِي السَّفَرِ عَلَى رَكْعَتَيْنِ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ كَذَلِكَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ،

مجھے میرے والد گرامی نے بتایا کہ انہوں نے سیدنا عبد الله بن عمر رضی الله عنہ کو فرماتے ہوئے سنا:
میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی صحبت میں رہا ہوں، آپ صلی الله علیہ وسلم سفر میں دو رکعت ( فرض ) سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ ( اسی طرح ) ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
[صحیح البخاری: 1102]
اسی مقام پر اس حدیث کے تحت شارح لکھتے ہیں۔
دوسری روایت صحیح مسلم میں یوں ہے۔

صحبت ابن عمر فی طریق مکۃ فصلی بنا الظھر رکعتین ثم اقبل واقبلنا معه حتی جاء رحله وجلسنا معه فحانت منه التفاتة فرای ناساً قیاما فقال ما یصنع ھولاء قلت یسبحون قال لو کنت مسبحا لا تممت (قسطلانی)

حفص بن عاصم کہتے ہیں کہ میں مکہ شریف کے سفر میں حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما کے ساتھ تھا۔ آپ نے ظہر کی دو رکعت فرض نماز قصر پڑھائی پھر کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ سنت پڑھ رہے ہیں۔آپ نے فرمایا کہ اگر میں سنتیں پڑھوں تو پھر فرض ہی کیوں نہ پورے پڑھ لوں۔ اگلی روایت میں مزید وضاحت موجود ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور ابو بکر اور عمر اور عثمان رضی الله عنہم سب کا یہی عمل تھا کہ وہ سفر میں نماز قصر کرتے اور ان دو رکعتوں فرض کے علاوہ کوئی سنت نماز نہیں پڑھتے تھے۔
بہت سے نا واقف بھائیوں کو سفر میں دیکھا جاتا ہے کہ وہ اہل حدیث کے اس عمل پر تعجب کیا کرتے ہیں۔ بلکہ بعض تو اظہار نفرت سے بھی نہیں چوکتے، ان لوگوں کو خود اپنی ناواقفی پر افسوس کرنا چاہیے اور معلوم ہونا چاہیے کہ حالت سفر میں جب فرض نماز کو قصر کیا جارہا ہے پھر اس وقت سنت نمازوں کا تو ذکر ہی کیا ہے۔
یہ حدیث جو شارح نے بیان کی یہ صحیح مسلم:(689) میں موجود ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:

ﻭ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﺴﻠﻤﺔ ﺑﻦ ﻗﻌﻨﺐ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻴﺴﻰ ﺑﻦ ﺣﻔﺺ ﺑﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ اﻟﺨﻄﺎﺏ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ، ﻗﺎﻝ: ﺻﺤﺒﺖ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻓﻲ ﻃﺮﻳﻖ ﻣﻜﺔ، ﻗﺎﻝ: ﻓﺼﻠﻰ ﻟﻨﺎ اﻟﻈﻬﺮ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ، ﺛﻢ ﺃﻗﺒﻞ ﻭﺃﻗﺒﻠﻨﺎ ﻣﻌﻪ، ﺣﺘﻰ ﺟﺎء ﺭﺣﻠﻪ، ﻭﺟﻠﺲ ﻭﺟﻠﺴﻨﺎ ﻣﻌﻪ، ﻓﺤﺎﻧﺖ ﻣﻨﻪ اﻟﺘﻔﺎﺗﺔ ﻧﺤﻮ ﺣﻴﺚ ﺻﻠﻰ، ﻓﺮﺃﻯ ﻧﺎﺳﺎ ﻗﻴﺎﻣﺎ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻣﺎ ﻳﺼﻨﻊ ﻫﺆﻻء؟ ﻗﻠﺖ: ﻳﺴﺒﺤﻮﻥ، ﻗﺎﻝ: «ﻟﻮ ﻛﻨﺖ ﻣﺴﺒﺤﺎ ﻷﺗﻤﻤﺖ ﺻﻼﺗﻲ، ﻳﺎ اﺑﻦ ﺃﺧﻲ ﺇﻧﻲ ﺻﺤﺒﺖ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻲ اﻟﺴﻔﺮ، ﻓﻠﻢ ﻳﺰﺩ ﻋﻠﻰ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ ﺣﺘﻰ ﻗﺒﻀﻪ اﻟﻠﻪ، ﻭﺻﺤﺒﺖ ﺃﺑﺎ ﺑﻜﺮ، ﻓﻠﻢ ﻳﺰﺩ ﻋﻠﻰ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ ﺣﺘﻰ ﻗﺒﻀﻪ اﻟﻠﻪ، ﻭﺻﺤﺒﺖ ﻋﻤﺮ، ﻓﻠﻢ ﻳﺰﺩ ﻋﻠﻰ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ ﺣﺘﻰ ﻗﺒﻀﻪ اﻟﻠﻪ، ﺛﻢ ﺻﺤﺒﺖ ﻋﺜﻤﺎﻥ، ﻓﻠﻢ ﻳﺰﺩ ﻋﻠﻰ ﺭﻛﻌﺘﻴﻦ ﺣﺘﻰ ﻗﺒﻀﻪ اﻟﻠﻪ» ﻭﻗﺪ ﻗﺎﻝ اﻟﻠﻪ: {ﻟﻘﺪ ﻛﺎﻥ ﻟﻜﻢ ﻓﻲ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺃﺳﻮﺓ ﺣﺴﻨﺔ} [ اﻷﺣﺰاﺏ: 21] [صحیح مسلم: 689]
عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ أَهَلَّ وَقَالَ إِنْ حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ لَفَعَلْتُ كَمَا فَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ حَالَتْ كُفَّارُ قُرَيْشٍ بَيْنَهُ وَتَلَا لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ،

سیدنا عبد الله بن عمر رضی الله عنہما نے احرام باندھا اور کہا کہ اگر مجھے بیت الله جانے سے روکا گیا تو میں بھی وہی کام کروں گا جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کیا تھا۔ جب آپ کو کفار قریش نے بیت الله جانے سے روکا اور آپ نے اس آیت کی تلاوت کی کہ بلاشبہ تمہارے لئے ہمیشہ سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم میں اچھا نمونہ ہے۔ [صحیح البخاری: 4184]
سیدنا عبدالله بن عمر رضی الله عنہما سے ایسے شخص کے متعلق پوچھا گیا جس نے نذر مانی ہو کہ کچھ مخصوص دنوں میں روزے رکھے گا۔ پھر اتفاق سے انہیں دنوں میں عید الاضحی یا عید الفطر واقع ہو گئی؟ تو سیدنا عبدالله بن عمر رضی الله عنہما نے فرمایا:
بلاشبہ یقیناً تمھارے لیے الله کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے۔
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ان ایام عید میں دن روزہ نہیں رکھتے تھے اور نہ ان دنوں میں روزے کو جائز سمجھتے تھے۔ [صحیح البخاری: 6705]

ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ، ﺃﻧﻪ ﻃﺎﻑ ﻣﻊ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺑﺎﻟﺒﻴﺖ، ﻓﺠﻌﻞ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﻳﺴﺘﻠﻢ اﻷﺭﻛﺎﻥ ﻛﻠﻬﺎ، ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻪ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ:” ﻟﻢ ﺗﺴﺘﻠﻢ ﻫﺬﻳﻦ اﻟﺮﻛﻨﻴﻦ؟ ﻭﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﺴﺘﻠﻤﻬﻤﺎ، ﻓﻘﺎﻝ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ: ﻟﻴﺲ ﺷﻲء ﻣﻦ اﻟﺒﻴﺖ ﻣﻬﺠﻮﺭا، ﻓﻘﺎﻝ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ: {ﻟﻘﺪ ﻛﺎﻥ ﻟﻜﻢ ﻓﻲ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺃﺳﻮﺓ ﺣﺴﻨﺔ} [اﻷﺣﺰاﺏ: 21]
ﻓﻘﺎﻝ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ: ﺻﺪﻗﺖ [مسند أحمد بن حنبل: 1877، سنده حسن]

اتباع سنت کی ایک اور جھلک ملاحظہ فرمائیں:

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻭﻛﻴﻊ، ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﻌﻤﺮﻱ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻗﺎﻝ: ﻣﺎ ﺗﺮﻛﺖ اﺳﺘﻼﻡ اﻟﺮﻛﻨﻴﻦ ﻓﻲ ﺷﺪﺓ ﻭﻻ ﺭﺧﺎء، ﻣﻨﺬ ﺭﺃﻳﺖ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﺴﺘﻠﻤﻬﻤﺎ اﻟﺤﺠﺮ ﻭاﻟﺮﻛﻦ اﻟﻴﻤﺎﻧﻲ،
[مسند أحمد بن حنبل: 5239، صحیح]

العمری کی نافع سے روایت صالح یعنی قابل قبول ہوتی ہے پھر ان کی متابعت بھی موجود ہے۔
اس موقع پر کئ ایک امثلہ بیان کی جا سکتی ہیں مگر مقصد صرف ہمیں مسئلہ کو سمجھنا ہے وہ یہ کہ جو عمل نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنت وحدیث صحیح سے ثابت نہیں ہو اس سے کلی طور پر اجتناب کرنا چاہیے ہے اور صرف اتنا عمل ہی کرنا چاہیے ہے جتنا عمل ہمیں رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنت سے ملتا ہے۔
اب وضو کے دوران اعضاء وضو کو دھوتے ہوئے یا مسواک کرتے ہوئے کوئی سے الفاظ ودعا پڑھنا رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ہرگز ثابت نہیں ہے صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین نے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے وضو طا مکمل طریقہ اس کے احکام وفضائل وضو کے بعد کی دعائیں تو بیان کیں ہیں مگر دوران وضو اعضاء وضو کو دھوتے ہوئے کچھ پڑھنا بیان نہیں کیا ہے تو یہ عمل قرآن وحدیث اور تعامل صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین سے ثابت نہیں ہے اس لئیے اس سے ہمیں اجتناب کرنا ہو گی اور اسی طرح رسول اکرم سیدنا محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت و پیروی کرنا ہو گی جیسے صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین نے کر کے دکھائی بھی اور بتائی بھی بلاشبہ اتباع سنت میں ہی نجات ہے اور رب العالمین کی قربت ومحبت کا ملنا ہے ورنہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے اندر ملاوٹ کرنا ،اضافہ کرنا بلاشبہ بدعت و حرام اور فسق وگمراہی ہے اور اپنی آخرت کو برباد کرنا ہے اس پر قرآن وحدیث میں کئ ایک دلائل و تصریحات موجود ہیں۔
رب العالمین ہمیں قرآن وسنت کا اس طرح پیروکار بنائیں جس طرح صحابہ کرام رضوان الله تعالٰی علیھم اجمعین پیروکار تھے۔

هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ