سوال (3037)

وضوء سے پہلے بسم اللہ پڑھنا کیا درجہ رکھتا ہے، اگر کوئی نہ پڑھے تو کیا اس کا وضو ہو جائے گا، اسی طرح صرف بسم اللہ پڑھنا چاہیے، یا بسم اللہ الرحمٰن الرحیم مکمل پڑھنا چاہیے؟

جواب

صرف بسم اللہ ہی پڑھنا ہے، اکثر علماء کا رجحان اس طرف ہے کہ وضوء میں بسم اللہ پڑھنا فرض ہے، یہ ان شاءاللہ صحیح ہے، قصداً و ارادتاً چھوڑنے سے وضوء نہیں ہوگا، باقی بھول جانا الگ چیز ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

وضو سے پہلے بسم الله پڑھنا شرط نہیں ہے کیونکہ اس باب کی جمیع روایات ضعیف و غیر ثابت ہیں، ہم نے جو تحقیق مشکاۃ المصابیح میں تعلیق لگائی ہے اسے نقل کر رہے ہیں۔
امام ترمذی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:

ﻓﺴﺄﻟﺖ ﻣﺤﻤﺪا ( یعنی البخاری) ﻋﻦ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻓﻘﺎﻝ: ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﻮﺳﻰ اﻟﻤﺨﺰﻭﻣﻲ ﻻ ﺑﺄﺱ ﺑﻪ ﻣﻘﺎﺭﺏ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭﻳﻌﻘﻮﺏ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺔ ﻣﺪﻧﻲ ﻻ ﻳﻌﺮﻑ ﻟﻪ ﺳﻤﺎﻉ ﻣﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻭﻻ ﻳﻌﺮﻑ ﻷﺑﻴﻪ ﺳﻤﺎﻉ ﻣﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﻋﻴﺴﻰ: ﺳﻤﻌﺖ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﻳﻘﻮﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ ﻳﻘﻮﻝ: ﻻ ﺃﻋﻠﻢ ﻓﻲ ﻫﺬا اﻟﺒﺎﺏ ﺣﺪﻳﺜﺎ ﻟﻪ ﺇﺳﻨﺎﺩ ﺟﻴﺪ
[العلل الكبير للترمذي : 17]

امام عقیلی نے کہا:

اﻷﺳﺎﻧﻴﺪ ﻓﻲ ﻫﺬا اﻟﺒﺎﺏ ﻓﻴﻬﺎ ﻟﻴﻦ
[الضعفاء الکبیر: 1/ 177]
ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺯﺭﻋﺔ اﻟﺪﻣﺸﻘﻲ: ﻗﻠﺖ ﻷﺑﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ: ﻓﻤﺎ ﻭﺟﻪ ﻗﻮﻟﻪ: ﻻ ﻭﺿﻮء ﻟﻤﻦ ﻟﻢ ﻳﺬﻛﺮ اﺳﻢ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ، ﻗﺎﻝ: ﻓﻴﻪ ﺃﺣﺎﺩﻳﺚ ﻟﻴﺴﺖ ﺑﺬاﻙ، ﻭﻗﺎﻝ اﻟﻠﻪ ﺗﺒﺎﺭﻙ ﻭﺗﻌﺎﻟﻰ: {ﻳﺎ ﺃﻳﻬﺎ اﻟﺬﻳﻦ ﺁﻣﻨﻮا ﺇﺫا ﻗﻤﺘﻢ ﺇﻟﻰ الصلاة ﻓﺎﻏﺴﻠﻮا ﻭﺟﻮﻫﻜﻢ ﻭﺃﻳﺪﻳﻜﻢ ﺇﻟﻰ اﻟﻤﺮاﻓﻖ} فلا ﺃﻭﺟﺐ ﻋﻠﻴﻪ، ﻭﻫﺬا اﻟﺘﻨﺰﻳﻞ، ﻭﻟﻢ ﺗﺜﺒﺖ ﺳﻨﺔ
[تاريخ أبي زرعة الدمشقي : ص :631]

امام ابو داود نے کہا:

ﻗﻠﺖ ﻷﺣﻤﺪ: ﺇﺫا ﻧﺴﻲ اﻟﺘﺴﻤﻴﺔ ﻓﻲ الوﺿﻮء؟ ﻗﺎﻝ: ﺃﺭﺟﻮ ﺃﻥ ﻻ ﻳﻜﻮﻥ ﻋﻠﻴﻪ ﺷﻲء، ﻭﻻ ﻳﻌﺠﺒﻨﻲ ﺃﻥ ﻳﺘﺮﻛﻪ ﺧﻄﺄ ﻭﻻ ﻋﻤﺪا، ﻭﻟﻴﺲ ﻓﻴﻪ ﺇﺳﻨﺎﺩ، ﻳﻌﻨﻲ: ﻟﺤﺪﻳﺚ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻻ ﻭﺿﻮء ﻟﻤﻦ ﻟﻢ ﻳﺴﻢ
[مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني : ص : 11]

امام أحمد بن حنبل کے ابو سعید خدری والی حدیث کے بارے

ﺃﺣﺴﻦ ﻣﺎ ﻳﺮﻭﻯ ﻓﻲ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻛﺜﻴﺮ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ
[مستدرک حاکم :1/ 246 ، 520]

کا معنی ہے کہ یہ سند دیگر کی نسبت کم ضعف والی ہے اور یہی وجہ ہے کہ امام صاحب نے اسے کم یثبت عندیہ کہا ہے
ملاحظہ فرمائیں:
حدیث أبی سعید خدری کے بارے امام أحمد بن حنبل نے کہا:
ﻟﻢ ﻳﺜﺒﺖ ﻋﻨﺪﻱ
[مسائل الإمام أحمد رواية ابنه عبد الله : 85]
ایک سوال کے جواب میں امام أحمد بن حنبل نے کہا:

ﻻ ﺃﻋﻠﻢ ﻓﻴﻪ ﺣﺪﻳﺜﺎ ﻟﻪ ﺇﺳﻨﺎﺩ ﺟﻴﺪ
[مسائل الإمام أحمد وإسحاق بن راهويه : 2/ 263]
اﺑﻦ اﻟﻤﻨﺬﺭ نے کہا: (ﻛﺎﻥ ﺃﺣﻤﺪ ﻳﻘﻮﻝ: ﻻ ﺃﻋﻠﻢ ﻓﻴﻪ ﺣﺪﻳﺜﺎ ﻟﻪ ﺇﺳﻨﺎﺩ ﺟﻴﺪ) . ﻭﺿﻌﻒ ﺣﺪﻳﺚ ﺣﺮﻣﻠﺔ، ﻭﻗﺎﻝ: (ﻟﻴﺲ ﻫﺬا ﺣﺪﻳﺚ ﺃﺣﻜﻢ ﺑﻪ) اﻷﻭﺳﻂ 1/368

سنن ترمذی میں ہے:

ﻗﺎﻝ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ: ﻻ ﺃﻋﻠﻢ ﻓﻲ ﻫﺬا اﻟﺒﺎﺏ ﺣﺪﻳﺜﺎ ﻟﻪ ﺇﺳﻨﺎﺩ ﺟﻴﺪ.
[سنن ترمذی تحت: 25]

امام ابو زرعہ الرازی ،امام ابو حاتم الرازی نے کہا:
ﻟﻴﺲ ﻋﻨﺪﻧﺎ ﺑﺬاﻙ اﻟﺼﺤﻴﺢ
[علل الحديث :1/ 595]
فائدہ:
امام بخاری، امام احمد وغیرہ کا “ﻟﻴﺲ ﻓﻲ ﻫﺬا اﻟﺒﺎﺏ ﺣﺪﻳﺚ ﺃﺣﺴﻦ ﻋﻨﺪﻱ ﻣﻦ ﻫﺬا” کہنے سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اس باب میں یہ سند سب سے کم ضعف والی ہے یعنی باقی کی نسبت اپنے اندر ضعف شدید نہیں رکھتی بلکہ خفیف رکھتی ہے
[مزید توضیح دیکھیے بيان الوهم و الإيهام: 3/ 313 ، 314]
بعد والے علماء کا اسے مجموعی طرق کے سبب حسن قرار دینا یا کہنا کہ معلوم ہوتا ہے اس کی اصل ہے قرین صواب معلوم نہیں ہوتا ہے جب کبار ائمہ نقاد اسے غیر ثابت اور ضعیف کہہ رہے ہیں تو یہی راجح ہے۔
ایک بظاہر صحیح نظر والے طریق میں بسم الله کی زیادت غیر محفوظ اور شاذ یے
ملاحظہ کریں:

ﻋﻦ ﺃﻧﺲ ﻗﺎﻝ: ﻃﻠﺐ ﺑﻌﺾ ﺃﺻﺤﺎﺏ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﺿﻮءا. ﻓﻘﺎﻝ: ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻫﻞ ﻣﻊ ﺃﺣﺪ ﻣﻨﻜﻢ ﻣﺎء؟ ﻓﻮﺿﻊ ﻳﺪﻩ ﻓﻲ اﻝﻣﺎء ﻭﻳﻘﻮﻝ: ﺗﻮﺿﺌﻮا ﺑﺴﻢ اﻟﻠﻪ
[سنن نسائی : 78 ، السنن الکبری للنسائی : 84]

اس طریق میں بسم الله کی زیادت معمر راوی کا وھم ہے کیونکہ دیگر کبار حفاظ ثقات اس زیادت کو ذکر نہیں کرتے اور صحیحین میں اس زیادت کے بغیر ہے اور وہی محفوظ ہے۔ تو وضو کے شروع میں بسم الله پڑھنا واجب نہیں نہ ہی اس کے نہ پڑھنے پر وضو پر کوئی اثر پڑتا ہے البتہ معروف محقق شیخ عبد الله بن عبد الرحمن السعد کہتے ہیں کہ برکت کے طور پر پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

اس باب میں کوئی حدیث ثابت نہیں، جیسے کہ آئمہ متقدمین کا فیصلہ ہے

فضیلۃ العالم اسامہ شوکت حفظہ اللہ