سوال (5502)

یا اہل القبور کہنا کیسا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے سامنے یا رسول اللہ کہہ کر سلام کرنا کیسا ہے؟

جواب

شریعت نے جو آداب بتائے ہیں وہ حکایتا اسی طرح بجا لانے کا حکم ہے، اسی طرح بجا لاتے ہیں، اس پر اسی طرح عمل کیا جاتا ہے اور اسے حکایات کہا جاتا ہے۔ ہم اس پر اسی طرح عمل کرتے ہیں جیسے ہمیں بتایا گیا۔ قرآن میں یا کا لفظ جن جن لوگوں کے لیے استعمال ہوا، تقریباً اس میں ایک بڑا حصہ وہ ان لوگوں کا ہے۔ جو جا چکے ہیں، چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، انبیاء ہوں یا ان کے دشمن۔ تو اس کو ہم حکایتا پڑھتے ہیں، حکایتا نہیں بیان کرتے۔
تو بالکل اسی طرح جب قبرستان میں جاتے ہیں تو “السلام علیکم یا اہل القبور” اگر یہ روایت قابل قبول ہے تو نہیں تو صحیح مسلم کے الفاظ ہیں “السلام علیکم أهل الديار”، یہ بھی منصوب ہے نہ؟ تو یہاں “یا” معذوق ہے، “السلام علیکم یا أهل الدیار”۔ یا تو وہاں بھی ہے، تو صرف “یا” سے جو ہے کچھ نہیں ہوتا جب تک اس کے بعد ایک خاص عقیدہ و نظریہ نہ رکھ لیا جائے، سننے کا، حاضر ناظر ہونے کا، ہمارے پہنچنے کی خبر ہونے کا ۔ تو یہ عقیدے خود ساختہ ہیں۔ ہمیں حکم ہے کہ قبرستان میں ایسے سلام کریں، التحیات میں اس طرح سلام کریں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں اس طرح سلام کریں گے، السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قبر ہے تو السلام علیک یا ابا بکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی ہے تو السلام علیک یا عمر رضی اللہ عنہ.

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

پیارے بھائی سب سے پہلے یہ سوچیں کہ ہم یا رسول اللہﷺ کس نیت کے ساتھ کہتے ہیں عربی میں یا کے ساتھ کسی کو بھی پکارنے کے مختلف معنی ہو سکتے ہیں۔ مثلا
1۔ یا لفظ حاضر آدمی کو ندا دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے اردو میں اے کا لفظ استعمال ہوتا ہے اسکا مقصد کسی کی توجہ حاصل کرنا ہوتا ہے اور یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ وہ سن بھی رہا ہے پس اس نیت سے صحابہ یارسول اللہ ﷺ کہتے تھے۔
2۔ یا کا لفظ غائب کو ندا دینے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اسکا مقصد اسکی توجہ حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ صرف تخیلاتی طور پہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے اردو میں بھی اسکا استعمال ہوتا ہے کہ کوئی اپنے فوت شدہ بھائی کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اے میرے بھائی تم کدھر چلے گئے اسی طرح شاعر اپنے کلام میں جب محبوب کو پکارتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اے میرے محبوب۔ اب اس میں یہ قطعا عقیدہ نہیں ہوتا کہ وہ سن بھی رہا ہے اس نیت سے فاطمہ ؓ نے یا کی جگہ وا ابتاہ کہا تھا۔
3۔ یا کا لفظ روایتا بھی بولا جاتا ہے مثلا کسی کی بات کو کوٹ کرتے ہوئے ہم وہی کہتے ہیں جو اس نے پہلے کہا ہوتا ہے چاہے ہمارا مقصد کسی کو سنانا یا ندا کرنا نہیں ہوتا مثلا ہمارا حدیث کی روایت کرتے ہوئے یہ کہنا کہ صحابی نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میرے لئے دعا کر دیں وغیرہ اب اس میں سننے والی بات ہی نہیں ہوتی بلکہ صرف ایک چیز کو روایت کیا جا رہا ہوتا ہو۔
4۔ یا کا لفظ کسی کو مدد کے لئے پکارنے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اس میں عموما منادی پہ لام داخل کیا جاتا ہے مگر لازم نہیں ہے جیسے یا لزید کہنا کہ اے زید میری مدد کر یا کسی مصبیت میں مدد کی نیت سے لام کے بغیر کہنا کہ یا زید اے زید میری مدد کرو۔ پس اسی نیت سے یا رسول اللہ ﷺ بھی کہا جاتا ہے۔
اب یہاں پہلے والا معاملہ تو ہمارے لئے درست نہیں کیونکہ نبی ﷺ ہمارے سامنے نہیں ہیں۔
دوسری صورت کہنا جائز ہے جیسا کہ عرب ملک میں گستاخ رسول ﷺ کے خلاف احتجاج کے موقع پہ ایک عالم نے کہا تھا کہ فداک ابی و امی یا رسول اللہ ﷺ تو ایسا کہنا جائز ہے اگر نیت یہی ہو۔
تیسری صورت تو روایت کی ہے اس پہ تو کوئی اختلاف ہی نہیں ہے۔
چوتھی صورت ہی اصل اختلاف والی ہے جسکو ہم حرام کہتے ہیں۔
اب کوئی عمومی طور پہ اگر یا رسول اللہ ﷺ کہتا ہے اور وہ کوئی چیز روایت نہیں کر رہا ہوتا تو پہلی اور تیسری صورت تو ممکن ہی نہیں ہو سکتی دوسری اور چوتھی ہی ممکن ہو سکتی ہے۔
لیکن چونکہ اکثریت لوگ چونکہ چوتھی کی نیت سے کہتے ہیں تو اس میں پھر شریعت کی راہنمائی یہ ملتی ہے کہ تم دوسری کی نیت سے بھی نہ کہو کیونکہ عوام کو فرق کرنا مشکل ہو جائے گا اسکی دلیل قرآن کی آیت ہے کہ لا تقولوا راعنا کہ آپ کو راعینا کہا جاتا جس میں انکی نیت بری ہوتی تو جو اچھی نیت سے راعنا کہنا چاہتے تھے انکو بھی اللہ نے منع کر دیا اور کہا کہ ایسا نہ کہو۔
پس اب عمومی لحاظ سے ہی اس سے پرہیز کرنا ضڑوری ہے۔ واللہ اعلم

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ