سوال (3893)

شيخ العصيمي حفظه الله ورعاه اپنی کتاب شرح دعاء قنوت الوتر” للعصيمي میں فرماتے ہیں:
ترجمہ: انسان جب بھی اللہ کے اس عظیم نام “رب” کے ساتھ دعا کرے تو اس کے آغاز میں کلمہ “یا” کا اضافہ کرنا درست نہیں ہے۔ مثلا یوں کہنا “یا ربنا اغفرلنا” “یا ربی اغفرلي”
قرآن مجید میں انبیاء کرام علیھم السلام کی جتنی دعاؤں کا آغاز اس نام سے ہے وہاں اس کے آغاز میں کلمہ “یا” نہیں ہے۔
علامہ شاطبی رحمہ اللہ نے اس کی دو وجوہات بیان کی ہیں:١)دعا کا آغاز اللہ تعالٰی کے نام سے ہو سکے۔ کیونکہ اگر کلمہ “یا” آئے گا تو آغاز اس سے ہو جائے گا۔
٢)عربی زبان میں کلمہ “یا” کسی بعید چیز کو پکارنے کے لیے آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات بالکل قریب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ

اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بے شک میں قریب ہوں(البقرة ١٨٦)۔
کیا یہ بات صحیح ہے؟ کیا لفظ جلالہ کے ساتھ “یا” کا استعمال منع ہے شریعت میں؟

جواب

“۔۔۔اس کے آغاز میں کلمہ “یا” کا اضافہ کرنا درست نہیں۔۔۔”
هذا خطأ محض… یہ کہہ لیں کہ “مناسب نہیں یا زیادہ بہتر اور اولی یوں ہے”۔۔۔

يجوز إدخال حرف النداء قبل اسم الجلالة عزوجل. قال ابن مالك في ألفيته:
وباضطرار خص جمع (يا) و(أل)
إلا مع الله ومحكي الجمل
والأكثر اللهم بالتعويض
وشذ (يا اللهم) في قريض

اسی طرح اپنے مفصل منظومے “الكافية الشافية” میں فرماتے ہیں:
و “يا” مع الله ومضمر لزم
ومع ذي استعانة أيضا حتم
اور اسکی شرح میں فرماتے ہیں:

“يجوز الاستغناء عن حروف النداء إن لم يكن المنادى “الله” ولا مضمرا، ولامستغاثا به، ولا اسم إشارة، ولا اسم جنس مفردا غير معين. فإن كان أحد هذه الخمسة لزمه “يا” نحو: “يا الله” و”يا إياك” ۔۔۔”.

یہ اقوال اور اس کے ساتھ آئمہ نحات نے حروف النداء للقريب والبعيد کی جو بحوث لکھی ہیں وہ دیکھی جائیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ لفظ جلالہ کے ساتھ “یا” لگانے میں شریعت کے کسی بھی قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔
رہی بات امام الشاطبی رحمہ اللہ تعالیٰ تو وہ بلاغی اعتبار سے کہی گئی ہے جس کو “مناسب وغیر مناسب” کے آئینے سے دیکھنا محل نظر ہے۔ دوسرا اگر امام رحمہ اللہ تعالیٰ کے قول کو سیاق وسباق سے سمجھا جائے تو مسئلہ مزید وضاحت سے سمجھ آ جائے گا۔
والله تعالى أعلى وأعلم والرد إليه أفضل وأسلم.

فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ

يا أيُّها النَّاسُ إنَّ اللَّهَ طيِّبٌ لا يقبلُ إلَّا طيِّبًا ، وإنَّ اللَّهَ أمرَ المؤمنينَ بما أمرَ بِه المرسلينَ فقالَ يَا أيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ وقالَ يَا أيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ قالَ وذَكرَ الرَّجلَ يُطيلُ السَّفرَ أشعثَ أغبرَ يمدُّ يدَه إلى السَّماءِ يا ربِّ يا ربِّ ومطعمُه حرامٌ ومشربُه حرامٌ وملبسُه حرامٌ وغذِّيَ بالحرامِ فأنَّى يستجابُ لذلِك
الراوي : أبو هريرة | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح الترمذي | الصفحة أو الرقم : 2989 | خلاصة حكم المحدث : حسن | التخريج : أخرجه الترمذي (2989) واللفظ له، وأخرجه مسلم (1015) باختلاف يسير

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ

“یا” کا کلمہ لفظِ جلالہ کے ساتھ حدیث سے ثابت ہے۔

أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَزِيدَ أَبُو بُرَيْدٍ الْبَصْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَنْظَلَةُ بْنُ عَلِيٍّ، أَنَّ مِحْجَنَ بْنَ الْأَدْرَعِ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، إِذَا رَجُلٌ قَدْ قَضَى صَلَاتَهُ وَهُوَ يَتَشَهَّدُ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ يَا اللَّهُ بِأَنَّكَ الْوَاحِدُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ ، الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ، أَنْ تَغْفِرَ لِي ذُنُوبِي ؛ إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ” قَدْ غُفِرَ لَهُ “. ثَلَاثًا. (سنن نسائی: 1301)

فضیلۃ الباحث محمد محبوب اثری حفظہ اللہ