سوال (3737)
سیدنا عبداللہ بن عمر کا پائوں سن ہوگیا یعنی موچ آگئی تو کسی نے کہا اسے پکارو جس سے محبت کرتے ہو تو حضرت عبداللہ بن عمر نے بلند آواز سے یا محمد کہا تو پائوں ٹھیک ہوگیا، اب اندازہ کرو جس نے یہ مشورہ دیا وہ کون تھا مسلمان یا مشرک؟ اور جس نے تکلیف میں یامحمد کہا وہ (صحابی) مسلمان تھا یا مشرک؟ اس کے حوالے میں پہلے بھی دے چکا ہوں شاید آپ نے پڑھے نہیں تھے۔ ضروری نہیں کہ حضور علیہ السلام نے تعلیم دی ہو تو جائز ہے خود بھی انسان کو شعور ہونا چاہیے یہ محبت کی باتیں ہیں حضور علیہ السلام کے لعاب دہن (تھوک مبارک) صحابہ چہرے پر لگاتے تھے، مگر حضور علیہ السلام نے اس کی تعلیم نہیں دی کہ میرا تھوک چہرے پر نہ ملو، مگر آگے صحابہ تھے، مشرک نہیں تھے۔
شیوخ کرام وضاحت مطلوب ہے۔
جواب
یہ ادب المفرد میں موجود ہے، اس کو ضعیف قرار دیا گیا ہے، ایک روایت میں یا محمد ہے، ایک روایت میں خالی محمد ہے، دوسرا یہ ہے کہ وہاں مدد کے لیے نہیں پکارا گیا تھا، بلکہ محبت کے لیے پکارا گیا تھا کہ جس سے محبت ہے، اس کا نام لو، یہ استعانت نہیں تھا، بلکہ محبت کا اظہار تھا، جس سے محبت ہوتی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے یا آتے ہوئے تکلیف دور ہو جاتی ہے، یہ ایک فطری بات ہے، یہاں استعانت کی بحث نہیں ہے، باقی اس کی سند ضعیف ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
یہ جو روایت پیش کی جاتی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا پاؤں سن ہوگیا تو انہوں نے “یا محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا، یہ سندا ثابت نہیں۔ یہ واضح شرک ہے، اور ہر صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ نے شرک سے محفوظ رکھا تھا۔ [الادب المفرد: 964]
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: خَدِرَتْ رِجْلُ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ،
عبدالرحمن بن سعد رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا پاؤں سن ہوگیا تو ان سے ایک آدمی نے کہا: اپنے محبوب ترین شخص کا نام لو (تو ٹھیک ہو جائے گا)انہوں نے کہا: محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)۔
سند میں ابواسحاق (مدلس) کا عنعنہ ہے۔ سندہ، ضعیف، غیر ثابت
ھذا ما عندی واللہ اعلم باالصواب
فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ
دوم یہ اثر کئی طرق سے مروی ہے اور اس میں وارد تمام طرق ضعیف و معلول ہیں اور ان میں سب سے عمدہ طریق سفیان الثوری عن أبی اسحاق السبیعی عن عبدالرحمن بن سعد ہے کیونکہ سفیان ثوری ابو اسحاق سے روایت میں احفظ واثبت ہیں
اور اس طریق میں عبدالرحمن بن سعد ایسا راوی ہے جس کی کسی ناقد امام نے صریح توثیق نہیں کی ہے، اگر کوئی کہے کہ امام نسائی نے ثقہ کہا ہے تو یہ خطاء ہے، سمجھنے والے کی کیونکہ صحیح یہ ہے کہ یہ نسائی کی توثیق دوسرے راوی عبدالرحمن بن سعد المدنی کے حق میں ہے جیسا کہ حافظ مزی نے المدنی کے ترجمہ میں ہی اسے نقل کیا اور عبدالرحمن بن سعد مولى عبد الله بن عمر کے ترجمہ میں امام نسائی کی توثیق نقل نہیں کی ہےاور تھذیب التھذیب میں یہ معاملہ مشتبہ ہو گیا پھر سیدنا عبدالله بن عمر رضی الله عنہ کے حفاظ ثقات روات یہ روایت بیان نہیں کرتے ہیں اور ابو اسحاق کے عبدالرحمن بن سعد سے سماع پر کوئی دلیل وقرینہ موجود نہیں ہے۔
الحاصل: یہ اثر ثابت نہیں ہے اور اس کا جو معنی اہل بدعت لیتے ہیں وہ اصول شرعیہ، اصول استدلال اور فھم آثار کے قواعد کے خلاف ہے، سلف صالحین میں سے کسی نے ندا لغیر الله، اور استغاثه غير الله کا باطل عقیدہ یہاں سے کشید نہیں کیا ہے پھر صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین جو قرآن وحدیث کے معانی و مطالب اور عقیدہ توحید وشرک کو سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے یہ ان پر الزام ہے۔
اہل علم نے اس کے غیر ثابت ہونے کے باوجود اس کی مناسب توجیہ کی ہیں جیسے دل میں سب سے محبوب شخصیت کو یاد کرنا اس کا نام لے کر، پھر اس سے ندا لغير الله کا جو باطل استدلال کیا جاتا ہے کیا یہ بدعتی اس میں اپنا کوئی سلف رکھتے ہیں خیر القرون و بعد کے زمانہ سلف صالحین سے؟
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ