سوال (2834)

کیا یا رسول اللہ کہنا جائز ہے؟

جواب

ہمیں رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد ان کی اطاعت و اتباع کرنے کا حکم دیا گیا یہی تقرب الله تعالى اور گناہوں کی بخشش کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور اس کے علاوہ رسول اکرم صلی الله علیہ کے جو آداب وحقوق کتاب و سنت میں بیان ہوئے ہیں، ان کا خیال رکھنا ضروری ہے، جبھی نجات ممکن ہے، تو آپ قرآن وحدیث کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو اہل بدعت کے عقائد جدیدہ و تصورات باطلہ کا کہیں ذکر تک نہیں ملے گا نہ ائمہ محدثین کی لکھی گئ کتب عقائد و السنة میں ان کے عقائد ونظریات کا تصور وذکر ملے گا حالانکہ وہ سب سے زیادہ محب رسول اور عقیدت مند تھے اور ختم نبوت کے معنی کو جاننے والے تھے، اب آتے ہیں آپ کے سوال کی طرف جب ہم صحیح احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین سائلین صرف اس وقت آپ کو يا رسول الله کے ساتھ مخاطب ہوتے تھے جب کوئی مسئلہ پوچھنا ہوتا یا کسی مسئلہ کو سمجھنا ہوتا یا آپ سے ہم کلام ہونا ہوتا۔
چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

ﻋﻦ ﻋﺎﺋﺸﺔ ﺃﻡ اﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﺎ، ﺃﻥ اﻟﺤﺎﺭﺙ ﺑﻦ ﻫﺸﺎﻡ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﺳﺄﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻘﺎﻝ: ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ، ﻛﻴﻒ ﻳﺄﺗﻴﻚ اﻟﻮﺣﻲ؟
[صحیح البخاری : 2]
ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﻮﺳﻰ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻟﻮا ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ، ﺃﻱ اﻹﺳﻼﻡ ﺃﻓﻀﻞ؟ ﻗﺎﻝ: ﻣﻦ ﺳﻠﻢ اﻟﻤﺴﻠﻤﻮﻥ ﻣﻦ ﻟﺴﺎﻧﻪ، ﻭﻳﺪﻩ
[صحیح البخاری: 11]
ﻋﻦ ﻋﺎﺋﺸﺔ، ﻗﺎﻟﺖ: ﻛﺎﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺇﺫا ﺃﻣﺮﻫﻢ، ﺃﻣﺮﻫﻢ ﻣﻦ اﻷﻋﻤﺎﻝ ﺑﻤﺎ ﻳﻄﻴﻘﻮﻥ، ﻗﺎﻟﻮا: ﺇﻧﺎ ﻟﺴﻨﺎ ﻛﻬﻴﺌﺘﻚ ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ، ﺇﻥ اﻟﻠﻪ ﻗﺪ ﻏﻔﺮ ﻟﻚ ﻣﺎ ﺗﻘﺪﻡ ﻣﻦ ﺫﻧﺒﻚ ﻭﻣﺎ ﺗﺄﺧﺮ، ﻓﻴﻐﻀﺐ ﺣﺘﻰ ﻳﻌﺮﻑ اﻟﻐﻀﺐ ﻓﻲ ﻭﺟﻬﻪ، ﺛﻢ ﻳﻘﻮﻝ: ﺇﻥ ﺃﺗﻘﺎﻛﻢ ﻭﺃﻋﻠﻤﻜﻢ ﺑاﻟﻠﻪ ﺃﻧﺎ
[صحیح البخاری : 20]
ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻣﺎﻣﺔ ﺑﻦ ﺳﻬﻞ ﺑﻦ ﺣﻨﻴﻒ، ﺃﻧﻪ ﺳﻤﻊ ﺃﺑﺎ ﺳﻌﻴﺪ اﻟﺨﺪﺭﻱ، ﻳﻘﻮﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: «ﺑﻴﻨﺎ ﺃﻧﺎ ﻧﺎﺋﻢ، ﺭﺃﻳﺖ اﻟﻨﺎﺱ ﻳﻌﺮﺿﻮﻥ ﻋﻠﻲ ﻭﻋﻠﻴﻬﻢ ﻗﻤﺺ، ﻣﻨﻬﺎ ﻣﺎ ﻳﺒﻠﻎ اﻟﺜﺪﻱ، ﻭﻣﻨﻬﺎ ﻣﺎ ﺩﻭﻥ ﺫﻟﻚ، ﻭﻋﺮﺽ ﻋﻠﻲ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ اﻟﺨﻄﺎﺏ ﻭﻋﻠﻴﻪ ﻗﻤﻴﺺ ﻳﺠﺮﻩ ﻗﺎﻟﻮا: ﻓﻤﺎ ﺃﻭﻟﺖ ﺫﻟﻚ ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ؟ ﻗﺎﻝ: اﻟﺪﻳﻦ
[صحیح البخاری : 23]
ﻋﻦ ﺳﻌﺪ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ، ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻋﻄﻰ ﺭﻫﻄﺎ ﻭﺳﻌﺪ ﺟﺎﻟﺲ، ﻓﺘﺮﻙ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺭﺟﻼ ﻫﻮ ﺃﻋﺠﺒﻬﻢ ﺇﻟﻲ، ﻓﻘﻠﺖ: ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﻣﺎ ﻟﻚ ﻋﻦ ﻓﻼﻥ ﻓﻮاﻟﻠﻪ ﺇﻧﻲ ﻷﺭاﻩ ﻣﺆﻣﻨﺎ۔۔۔۔۔
[صحیح البخاری : 27]

اسی حدیث میں خود رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم جب سعد رضی الله عنہ سے مخاطب ہوے تو انہیں یا سعد کہہ کر مخاطب ہوئے۔

ﻭ ﻋﺎﺩ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: ﻳﺎ ﺳﻌﺪ ﺇﻧﻲ ﻷﻋﻄﻲ اﻟﺮﺟﻞ، ﻭﻏﻴﺮﻩ ﺃﺣﺐ ﺇﻟﻲ ﻣﻨﻪ، ﺧﺸﻴﺔ ﺃﻥ ﻳﻜﺒﻪ اﻟﻠﻪ ﻓﻲ اﻟﻨﺎﺭ.
[صحیح البخاری : 27]

ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺟﻤﺮﺓ، ﻗﺎﻝ: ﻛﻨﺖ ﺃﻗﻌﺪ ﻣﻊ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﻳﺠﻠﺴﻨﻲ ﻋﻠﻰ ﺳﺮﻳﺮﻩ ﻓﻘﺎﻝ: ﺃﻗﻢ ﻋﻨﺪﻱ ﺣﺘﻰ ﺃﺟﻌﻞ ﻟﻚ ﺳﻬﻤﺎ ﻣﻦ ﻣﺎﻟﻲ ﻓﺄﻗﻤﺖ ﻣﻌﻪ ﺷﻬﺮﻳﻦ، ﺛﻢ ﻗﺎﻝ: ﺇﻥ ﻭﻓﺪ ﻋﺒﺪ اﻟﻘﻴﺲ ﻟﻤﺎ ﺃﺗﻮا اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ: ﻣﻦ اﻟﻘﻮﻡ؟ ﺃﻭ ﻣﻦ اﻟﻮﻓﺪ؟ -ﻗﺎﻟﻮا: ﺭﺑﻴﻌﺔ. ﻗﺎﻝ: ﻣﺮﺣﺒﺎ ﺑﺎﻟﻘﻮﻡ، ﺃﻭ ﺑﺎﻟﻮﻓﺪ، ﻏﻴﺮ ﺧﺰاﻳﺎ ﻭﻻ ﻧﺪاﻣﻰ، ﻓﻘﺎﻟﻮا: ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺇﻧﺎ ﻻ ﻧﺴﺘﻄﻴﻊ ﺃﻥ ﻧﺄﺗﻴﻚ ﺇﻻ ﻓﻲ اﻟﺸﻬﺮ اﻟﺤﺮاﻡ، ﻭﺑﻴﻨﻨﺎ ﻭﺑﻴﻨﻚ ﻫﺬا اﻟﺤﻲ ﻣﻦ ﻛﻔﺎﺭ ﻣﻀﺮ، ﻓﻤﺮﻧﺎ ﺑﺄﻣﺮ ﻓﺼﻞ، ﻧﺨﺒﺮ ﺑﻪ ﻣﻦ ﻭﺭاءﻧﺎ، ﻭﻧﺪﺧﻞ ﺑﻪ اﻟﺠﻨﺔ، ﻭﺳﺄﻟﻮﻩ ﻋﻦ اﻷﺷﺮﺑﺔ: ﻓﺄﻣﺮﻫﻢ ﺑﺄﺭﺑﻊ، ﻭﻧﻬﺎﻫﻢ ﻋﻦ ﺃﺭﺑﻊ، ﺃﻣﺮﻫﻢ: ﺑﺎﻹﻳﻤﺎﻥ ﺑاﻟﻠﻪ ﻭﺣﺪﻩ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺗﺪﺭﻭﻥ ﻣﺎ اﻹﻳﻤﺎﻥ ﺑﺎﻟﻠﻪ ﻭﺣﺪﻩ ﻗﺎﻟﻮا: اﻟﻠﻪ ﻭﺭﺳﻮله ﺃﻋﻠﻢ، ﻗﺎﻝ: ﺷﻬﺎﺩﺓ ﺃﻥ ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ اﻟﻠﻪ ﻭﺃﻥ ﻣﺤﻤﺪا ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ، ﻭﺇﻗﺎﻡ اﻟﺼﻼﺓ، ﻭﺇﻳﺘﺎء اﻟﺰﻛﺎﺓ، ﻭصيام ﺭﻣﻀﺎﻥ، ﻭﺃﻥ ﺗﻌﻄﻮا ﻣﻦ اﻟﻤﻐﻨﻢ اﻟﺨﻤﺲ ﻭﻧﻬﺎﻫﻢ ﻋﻦ ﺃﺭﺑﻊ: ﻋﻦ اﻟﺤﻨﺘﻢ ﻭاﻟﺪﺑﺎء ﻭاﻟﻨﻘﻴﺮ ﻭاﻟﻤﺰﻓﺖ، ﻭﺭﺑﻤﺎ ﻗﺎﻝ: اﻟﻤﻘﻴﺮ ﻭﻗﺎﻝ: اﺣﻔﻈﻮﻫﻦ ﻭﺃﺧﺒﺮﻭا ﺑﻬﻦ ﻣﻦ ﻭﺭاءﻛﻢ.
[صحيح البخارى : 53]
ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻗﺎﻝ: ﺑﻴﻨﻤﺎ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻲ ﻣﺠﻠﺲ ﻳﺤﺪﺙ اﻟﻘﻮﻡ، ﺟﺎءﻩ ﺃﻋﺮاﺑﻲ ﻓﻘﺎﻝ: ﻣﺘﻰ اﻟﺴﺎﻋﺔ؟ ﻓﻤﻀﻰ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﺤﺪﺙ، ﻓﻘﺎﻝ ﺑﻌﺾ اﻟﻘﻮﻡ: ﺳﻤﻊ ﻣﺎ ﻗﺎﻝ ﻓﻜﺮﻩ ﻣﺎ ﻗﺎﻝ. ﻭﻗﺎﻝ ﺑﻌﻀﻬﻢ: ﺑﻞ ﻟﻢ ﻳﺴﻤﻊ، ﺣﺘﻰ ﺇﺫا ﻗﻀﻰ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻗﺎﻝ: ﺃﻳﻦ – ﺃﺭاﻩ – اﻟﺴﺎﺋﻞ ﻋﻦ اﻟﺴﺎﻋﺔ ﻗﺎﻝ: ﻫﺎ ﺃﻧﺎ ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ، ﻗﺎﻝ: ﻓﺈﺫا ﺿﻴﻌﺖ اﻷﻣﺎﻧﺔ ﻓﺎﻧﺘﻈﺮ اﻟﺴﺎﻋﺔ، ﻗﺎﻝ: ﻛﻴﻒ ﺇﺿﺎﻋﺘﻬﺎ؟ ﻗﺎﻝ: ﺇﺫا ﻭﺳﺪ اﻷﻣﺮ ﺇﻟﻰ ﻏﻴﺮ ﺃﻫﻠﻪ ﻓﺎﻧﺘﻈﺮ اﻟﺴﺎﻋﺔ.
[صحیح البخاری : 59]

یہ چند مثالیں ہیں ورنہ صحیح البخاری، صحیح مسلم کے علاوہ بیسیوں کتب احادیث میں اس طرح کی احادیث موجود ہیں جن سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے يا رسول الله کے الفاظ سے یا تو کسی شرعی راہنمائی، مسئلہ کی وضاحت معلوم کرنے اور مسئلہ پوچھنے کے لیے مخاطب ہوا جاتا تھا یا بات کرنے کے ارادہ سے اس کے علاوہ کسی اور غرض ونیت سے صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کا اہل بدعت کے عقیدہ باطلہ کی طرح يا رسول الله جیسے الفاظ سے پکارنا ہرگز ثابت نہیں ہے نہ قریب سے نہ دور سے۔
اس لیے ہمیں رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لانا، اور ان کی شان وعظمت کو ایسے ماننا اور تسلیم کرنا ہے جیسے قرآن وحدیث نے راہنمائی کی اور شان وعظمت بیان کی ہے اور رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے ویسے عقیدت ومحبت کرنی ہے جیسے صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین نے عقیدت ومحبت اور اس کے تقاضے پورے کر کے دکھائے۔
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے عقیدت ومحبت اور ایمان ویسے ہونا چاہیے جیسے صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کا تھا اسی ایمان وعقیدت ومحبت کے ساتھ صحابہ کا ایمان مکمل بھی تھا مقبول بھی تھا اور اسی بنیاد پر انہیں رب العالمین کی رضا ورحمت حاصل ہوئی اور ان کا مقالہ ومرتبہ بلند ہوا اور وہ جنتی قرار پائے ۔
صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کی محبت وعقیدت کے علاوہ کوئی اور محبت وعقیدت کا رنگ اور صورت اختیار کرنا صریح گمراہی اور اخروی خسارے کا سبب ہے کیونکہ صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین نے عقیدت ومحبت غلو سے پاک تھی اور وحی الٰہی کے عین مطابق تھی۔
تو آج وہ سبب يا رسول الله کہنے کا موجود ہی نہیں تھا جو صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کو پیش آیا آج تو دین اسلام قرآن وحدیث کی صورت میں محفوظ اور موجود ہے دین اسلام میں رسوخ رکھنے والے علماء موجود ہیں سو شرعی راہنمائی کے لیے ان ثقہ،صحیح العقیدہ علماء کی طرف رجوع کیا جائے گا جو آخرت کو یاد رکھتے ہوئے دیانتداری کے ساتھ خالص قرآن وحدیث کے مطابق راہنمائی کرتے ہیں۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

اس حوالے سے حافظ صلاح الدین یوسف صاحب رحمہ اللہ کے مضمون کا مطالعہ کریں وہ مفید رہے گا، حافظ عبدالمنان نور پوری صاحب رحمہ اللہ کے احکام و مسائل جلد: 1 صفحہ نمبر : 49 پر وہ مضمون چھپا ہوا ہے اس میں تفصیل سے گفتگو ہوئی ہے اس موضوع پر۔

فضیلۃ الباحث امتیاز احمد حفظہ اللہ

یا رسول اللہ حکایتاً کوئی آیت یا حدیث پڑھتے ہوئے جائز ہے، جیسا کہ یاایھالنبی، یا اس طرح التحیات میں “السلام علیک یاایھالنبی” پڑھا جاتا ہے، یا اس سے مراد شاعرانہ تخیل ہے، تب بھی گنجائش کسی حد تک نکل آئے گی، اگر اس سے مراد یہ ہے کہ ہم اس طرح پکاریں گے، ہمارے پکارنے سے آ جائیں گے، یہ تو باطل عقیدہ ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ