یادوں کی بیساکھیاں، انا اور قربانی
اہلِ دل خوب جانتے ہیں کہ یادیں بیساکھیوں کا کام دیا کرتی ہیں۔اہلِ جنوں یہ بھی مانتے ہیں کہ یہ بیساکھیاں خستہ حال اور نحیف و نزار نہیں بلکہ بڑی ہی مضبوط ہوتی ہیں۔ہمارے گردوپیش نہ جانے کتنے ہی لوگ ان بیساکھیوں کے سہارے زندگیاں تمام کر رہے ہیں اور خبر نہیں کہ کتنے ہی لوگ ان یادوں کی بیساکھیوں کو ٹیکتے ٹیکتے قبر میں پہنچ جاتے ہیں۔یادوں کے سہارے زندگیاں گزار دینے والے لوگ باہر سے جتنے تنومند اور توانا نظر آتے ہیں، اندر سے اتنے ہی کھوکھلے ہوتے ہیں۔اگرچہ اس حضرت انسان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ اگلی سانس لے بھی سکے گا یا نہیں؟ لیکن پھر بھی اس کے دل میں اتنی ہَوا بھری ہوئی ہے اور اس کے دماغ میں ایسا کلف لگ چکا ہے کہ وہ انتہائی محبوب و مرغوب رشتوں کو ختم کرنا تو گوارا کر لیتا ہے مگر دماغ کے اندر بھری ہوئی پھونک کو ذرا بھی کم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔وہ انسانوں کو چھوڑ کر اُن کی یادوں کے سہارے زندگی گزارنا تو سیکھ لیتا ہے مگر اپنے کلف میں خفیف سی سَلوَٹ بھی نہیں آنے دیتا۔ایسا انسان یادوں کی بیساکھیوں کو کبھی پرانی نہیں ہونے دیتا۔گُل زار کے اشعار ہیں:-
درد ہلکا ہے سانس بھاری ہے
جیے جانے کی رسم جاری ہے
آپ کے بعد ہر گھڑی ہم نے
آپ کے ساتھ ہی گزاری ہے
اِس محبت آفریں کیفیت کے باوجود اس کی گُل و گُل زار زندگی کھنڈر بنتی ہے تو بنتی رہے، باغ و بہار زیست کے لمحات خزاں رسیدگی میں ڈھلتے ہیں تو ڈھلتے رہیں، یہ لوگ رعونتوں کے جس منصب پر متمکن ہوتے ہیں اس سے ایک آدھ انچ بھی نیچے سرکنے پر آمادہ نہیں ہوتے، خواہ رشتے اجڑ جائیں، چاہے تعلقات مسموم ہو کر رہ جائیں، بس تکبّر اور نخوت میں فرق نہ آنے پائے۔وہ، ایسے لوگوں کو بھی ہمیشہ کے لیے کھو دینا تو گوارا کر لیتے ہیں کہ جن کا متبادل کوئی ہو ہی نہیں سکتا مگر انا کے پہاڑ سے نیچے اترنا کبھی پسند نہیں کرتے۔
لاکھوں روپے کے بیل قربان کر دینے والے، فربہ اور موٹے تازے بکرے چھترے کو تیز چھری تلے لٹا کر ذبح کر دینے والے اور قوی الجثہ اونٹوں کا خون بہا دینے والے لوگ اپنے اندر پلی ہوئی ہٹّی کٹّی انا کو قربان کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوتے۔
لاکھ مِنتوں اور ترلوں کے باوجود یہ لوگ اپنی پھوں پھاں اور اکڑ پر چھری چلانا کبھی گوارا نہیں کرتے۔زندگی کے ہر معاملے اور اسلوب میں یکسانیت سے اکتا جانے والے لوگ، کشیدہ خاطر تعلقات میں یکسانیت سے کبھی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتے۔وہ عمریں گزار دیتے ہیں مگر اس ایک ڈگر اور رَوِش سے انھیں بوریت نہیں ہوتی۔نیند کی حالت میں بھی کروٹیں بدلنے کے عادی اس انسان کی حالت یہ ہو جاتی ہے کہ وہ زندگیاں بِتا دیتا ہے مگر اپنی منافرت سے لدی اس سوچ اور فکر کی کروٹ بدلنے پر کبھی تیار ہی نہیں ہوتا۔
زندگیوں سے ہار مان جانے والے مفلس اور غریب لوگ بھی بعض اوقات اتنے ٹھاڈے اور تگڑے بن جاتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں شکست تسلیم کرنے پر آمادگی بھی ظاہر نہیں کرتے۔وہ کسی ایک شخص کی یادوں میں پوری زندگی گزار دینا تو قبول کر لیتے ہیں مگر تعلقات کو ازسرِنو بحال کرنے میں پہل پر آمادہ نہیں ہوتے۔فگار اناوی نے کیا خوب کہا ہے!
ان پہ قربان ہر خوشی کر دی
زندگی نذرِ زندگی کر دی
مَیں نے کبیدہ خاطر تعلقات کے باعث بہت سے سسکنے والے لوگوں کی زندگیوں میں جھانک کر دیکھا ہے، بیشتر افراد جنھوں نے اپنے اعزّہ و اقربا کے جینے مرنے میں شرکت سے بھی گریز پائی اختیار کی ہوئی ہے، اُن کے اس قدر جارحانہ جذبات کے اسباب پھرول کر دیکھا تو بند گوبھی کی طرح اندر سے کچھ بھی تو برآمد نہیں ہوا۔
محض سطحی باتوں ہی کو زندگی کا روگ بنا لیا جاتا ہے۔ اللہ رب العزّت قربانیوں کے سلسلے کو محض جانوروں تک محدود نہیں رکھنا چاہتے۔لاریب عیدالاضحیٰ پر جانوروں کی قربانیاں اجر اور ثواب کے لحاظ سے اعلا درجے کی حامل ہیں، مگر اسلام زندگیوں کو محض جانوروں کی قربانیوں تک کافی نہیں سمجھتا، جانوروں کی یہ قربانیاں تو دراصل اس سلسلے کا محض نقطہ ء آغاز ہوتی ہیں۔
ایک ایسا سنگِ بنیاد جو ہر شخص بڑی آسانی کے ساتھ رکھ لیتا ہے مگر اس کے اوپر محبتوں اور الفتوں کے حسین و جمیل محل تعمیر کرنے کے لیے انتہائی قلیل لوگ بھی اپنی اناؤں، خواہشوں اور تمناؤں کو قربان نہیں کرتے۔معذرت کے ساتھ ہمارے اکثر علمائے کرام بھی جانوروں کی قربانیوں کے فضائل اور مناقب بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں، وہ بے کار تمناؤں، بے ثمر خواہشوں اور جھوٹی اناؤں کو قربان کرنے تک اپنی تقاریر کا دائرہ وسیع کرتے ہی نہیں۔
آپ اپنے قرب وجوار میں دیکھ لیجیے اور اگر آپ کے لیے ممکن ہو تو اپنے گریبان میں بھی جھانک لیجیے آپ کو اپنے آپ سمیت کتنے ہی لوگ ایسے دِکھائی دیں گے جو اپنی ضد کے مرگھٹ پر دَم توڑ رہے ہیں۔کتنے ہی انسان ایسے ہیں جو ہٹ دھرمی کے جال میں خود پھنسے بیٹھے ہیں۔اَن گنت افراد ایسے ہیں جنھوں نے خود اپنی جانوں کو مخمصوں اور جھنجٹوں میں الجھا رکھا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگیوں میں انبساط کے لمحات کا قحط پڑ گیا ہے، ان کی زیست میں فرحت اور شادمانیوں کا کال پڑتا جا رہا ہے۔موٹے، حسِین و توانا جانور، اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے ہزاروں لاکھوں روپے صَرف کرنے والو! اس عید پر یادوں کی بیساکھیوں کو توڑ پھینکیے اور بکرے چھترے کے ساتھ ساتھ اپنی اکڑ اور انا کو قربان کر دیجیے۔جس اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عیدالاضحیٰ پر جانور قربان کرنے کا حکم دیا ہے، اسی اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا ہے کہ ” ظلم و زیادتی اور قطعِ رحمی دو جرم ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آخرت کی سزا کے ساتھ، دنیا میں ان کی فوری سزا بھی دے دیتا ہے، ان دو جرائم کے علاوہ اور کوئی جرم ایسا نہیں کہ جس کی سزا کا اللہ تعالیٰ اس طرح اہتمام کرتا ہو۔(جامع الترمذی)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ” رحم ( صلہ رحمی ) عرش کے ساتھ معلّق کہتا ہے جومجھے ملائے، اللہ اسے ( اپنے ساتھ ) ملائے اور جو مجھے قطع کرے اللہ اسے قطع کرے“ (صحیح مسلم) سو خواہ مخواہ کی اناؤں کے جنجالوں میں اپنے آپ کو پھنسا کر زندگی کو دشوار مت کیجیے۔خود ساختہ انا پر رشتے ناتوں کو قربان نہ کیجیے۔
اس عید کا حقیقی مزہ اسی وقت لیا جا سکتا ہے جب جانوروں کے ساتھ ساتھ اپنی جھوٹی انا کو بھی ذبح کر دیا جائے ایسا کرنے میں آپ کو بڑی ہی تکلیف بھی ہو سکتی ہے۔ممکن ہے آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جائے، شاید آپ بچوں کی طرح بلک بلک کر رو بھی پڑیں مگر تجربہ کر کے دیکھ لیجیے ایسا کرنے کے عوض آپ کو اس دنیا میں وہ سکون ملے گا جو زندگی میں پہلے کبھی نصیب نہ ہوا ہو گا۔
( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )