یہودی مذہب حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے یہودا کی طرف منسوب ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد جب ان کی سلطنت دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی تو یہ خاندان اس ریاست کا مالک ہوا جو یہودیہ کے نام سے موسوم ہوئی اور بنی اسرائیل کے دوسرے قبیلوں نے اپنی الگ ریاست قائم کرلی جو سامریہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ پھر اسیریا (Assyria) یعنی قدیم عراقی تہذیب (Mesopotamia) کے باشندوں نے سامریہ کو برباد کردیا اور ان اسرائیلی قبیلوں کا بھی نام و نشان مٹا دیا جو اس ریاست کے بانی تھے۔
اس کے بعد صرف یہودا اور اس کے ساتھ بنیامین کی نسل ہی باقی رہ گئی جس پر یہودا کی نسل کے غلبے کی وجہ سے یہود کے لفظ کا اطلاق ہونے لگا۔ اس نسل کے اندر کاہنوں، ربیوں اور احبار نے اپنے اپنے خیالات اور رجحانات کے مطابق عقائد اور رسوم اور مذہبی ضوابط کا جو ڈھانچہ صدہا برس میں تیار کیا اس کا نام یہودیت ہے۔ اللّٰه کے رسولوں کی لائی ہوئی ربانی ہدایت کا بہت تھوڑا ہی عنصر اس میں شامل ہے اور اس کا حلیہ اچھا خاصا بگاڑ دیا گیا ہے۔ اسی بنا پر قرآن مجید میں اکثر مقامات پر ان کو “الذین ھادوا” کہہ کر خطاب کیا گیا ہے یعنی اے وہ لوگو جو یہودی بن کر رہ گئے ہو۔ قرآن میں جہاں ’’بنی اسرائیل‘‘ کو خطاب کیا گیا ہے وہاں ’’بنی اسرائیل‘‘کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اِس وقت یہودیوں کے تین بین الاقوامی اڈے ہیں: ایک امریکہ، دوسرا برطانیہ اور تیسرا جرمنی۔
 اسرائیلی :
حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ’’اسرائیل‘‘ تھا اور ان کی اولاد ’’بنی اسرائیل‘‘ کہلائی۔ ’’اسرائیلی‘‘ نسبت ایک ’’خاندانی‘‘ نسبت ہے، یعنی جو بھی حضرت یعقوب علیہ السلام کی آل اور آل در آل میں سے ہوگا وہ خود کو ’’اسرائیلی‘‘ کہلا سکتا ہے۔ سرزمینِ فلسطین پر غاصبانہ طور پر قائم کی گئی ریاست بنام ’’اسرائیل‘‘ کی قومیت رکھنے والے ’’اسرائیلی‘‘ اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد والے ’’اسرائیلی‘‘ میں فرق ہے۔ ناجائز، غاصب اور دہشتگرد ریاست اسرائیل بنانے والے یورپ کے وہ ’’اشکنازی‘‘ (Ashkenazi) قوم کے لوگ ہیں جنہوں نے یہودی مذہب اپنایا ہوا ہے، وہ نسلی اعتبار سے ابراہیمی یا یعقوبی نہیں ہیں اور نہ ہی فلسطین پر ان کا کوئی خاندانی حق ہے۔
 صہیونی :
تحریکِ صہیونیت (Zionism) کے ماننے والوں کو صہیونی (Zionist) کہا جاتا ہے۔ صہیونیت ایک مذہبی، سیاسی، قوم پرستانہ اور متشدد تحریک ہے، جس کی بنیاد 1896ء میں رکھی گئی تھی۔ یہ نام القدس میں موجود ’’صہیون پہاڑ‘‘ (Mount Zion) کی نسبت سے اختیار کیا گیا۔ یہودیوں نے صہیون کے نام کی طرف منسوب ہو کر تحریک چلائی۔ صہیونیت کے منشور میں ایک یہودی ریاست قائم کرنا، فلسطینیوں کو وہاں سے بے دخل کرنا، مسجدِ اقصیٰ کی جگہ ہیکلِ سلیمانی تعمیر کرنا اور پھر وہاں سے پوری دنیا پر حکومت کرنا شامل ہے۔ صہیونیت کے عزائم کے مطابق دنیا پر حکمرانی صرف یہودیوں کا حق ہے. اس مقصد کا حصول اس طرح ممکن ہے کہ دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک کے علاقوں پر (Greater Israel) سلطنت قائم کی جائے۔